Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, April 17, 2022

اکابرین ملت سے براہ راست سوال

از/ عدیل اختر /صدائے وقت 
====================================
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری صاحب نے چند روز پہلے ایک ویڈیو جاری کرکے مسلم نوجوانوں کو یہ نصیحت کی کہ وہ پروپیگنڈوں سے متاثر نہ ہوں اور اپنے قائدین پر اعتماد رکھیں۔ اس ویڈیو میں انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ مسلمانوں کے لئے ملک کے حالات 1857 اور1947 سے زیادہ خطرناک ہو گئے ہیں۔ لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور اس سے جڑے لوگ مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے کیا کررہے ہیں؟
ہم مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تمام ذمہ داروں سے اور بورڈ سے جڑی تنظیموں سے بر سر عام یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ کے اوپر کیا بھارت کے مسلمانوں کی جان و مال اور ایمان و عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں ہے؟ اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ ہاں آپ کی یہ ذمہ داری ہے تو مسلمانوں کے لئے گزشتہ کئ سال سے جس طر ح کے حالات بنتے جارہے ہیں اور روز بہ روز جو خطرناک وارداتیں ہو رہی ہیں ان کے پیش نظر آپ نے اب تک کیا کیا ہے؟ آپ کہیں گے کہ ہم مختلف معاملوں میں عدالت میں مقدمے لڑ رہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ آپ کی یہ مقدمے بازیاں مسلمانوں کو ابھی تک کتنا انصاف دلا سکی ہیں اور آنے والے خطروں سے بچانے کے لئے کیا یہ کافی ہیں؟ پچھلے کئ سالوں سے متعدد افراد کو پکڑ کر لنچ کردیا گیا آپ نے کسی موقع پر کوئی موثر احتجاج کیا؟ مسلم عورتوں کی عزتوں کی نیلامی کے بازار آن لائن لگا ئے گۓ، بہت سے غیر مسلم شریف لوگوں نے اس پر احتجاج کیا، کیا آپ نے بھی کوئی احتجاج کیا؟ مسلمانوں کے قتل عام کی اپیلیں ہو رہی ہیں، کھلے عام تیاریاں ہو رہی ہیں، ابتدائی حملے شروع ہوگئے ہیں، آۓ دن کہیں نہ کہیں کسی مسجد پر چڑھائی ہو رہی ہے ، کسی مسلم بستی میں آکر حملہ کیا جارہا ہے۔ آپ لوگ کسی مظلوم ومجبور قوم کے اکابر اور ذمہ دار کی حیثیت سے ظلم کے خلاف کوئی آواز اٹھا رہے ہیں یا وزیر اعظم مودی کی  طرح منھ پر رومال باندھ کر خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہیں؟
آپ کی اس خاموشی اور بے حرکتی کو آپ کی دانش وری، حکمت اور دور اندیشی سمجھا جائے یا خوف اور بزدلی؟ دنیا میں بھارت کے مسلمانوں کے لئے بہت بڑا خطرہ محسوس کیا جارہا ہے، نسل کشی کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کی سال سے نسل کشی کی علامتوں کی طرف دھیان دلا رہے ہیں، امریکی کانگریس میں آواز اٹھائی جارہی ہے اور فکر مندی ظاہر کی جارہی ہے، لیکن آپ کتنے فکر مند ہیں اور کیا کررہے ہیں؟

آپ نے کفر و اسلام کی کشمکش کو تو بھلادیا، جہاد کے تصور سے توبہ کر لی، لیکن جمہوریت پر تو آپ کا ایمان ہے نا؟ تو پھر آپ جمھوری طریقے بھی اختیار کیوں نہیں کررہے؟ ان خطرناک حالات میں، کھلے اور صاف خطروں میں آپ کی جو خاموشی اور بے نیازی ہے اس کی مثال دنیا کی کسی قوم میں شاید نہ ملے۔

آپ ہمارا منہ بند کرنے کے لئے کہیں گے آپ ہی بتائیے کہ ہم کیا کریں؟ تو ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ کیا کر سکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو آپ کو مسلمانوں کا کوئی نمائندہ اجتماع بلانا چاہیے۔ اس اجتماع میں آپ صورت حال پر غور بھی کریں اور اسی پلیٹ فارم سے آپ اپنے خطرے کا اظہار بھی کریں۔
جس خطرے کو دنیا محسوس کررہی ہیں، خود ملک کے بہت سے غیر مسلم صحافی اور سماجی مفکرین جس صورت حال سے بے چین ہیں اور چیخ چیخ کر پوچھ رہے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے، اس خطرے کا اقرار و اظہار آپ خود کیوں نہ کریں؟
کم سے کم جو کام آپ کو کرنا چاہئے وہ یہ کہ اس ایمرجنسی صورت حال میں آپ لوگ اپنے معمول کی مشغولیتوں کو ترک کریں۔ آپ مختلف سیاسی پارٹیوں سے مل کر اپنی بے چینی اور تشویش کا اظہار کریں۔ آپ غیر ملکی سفارت خانوں میں جائیں، اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن جائیں، آپ انٹر نیشنل پریس کانفرنس کریں اور دنیا کو خود اپنی طرف سے بتائیں کہ بھارت کے مسلمان کتنی خطرناک صورت حال میں گھر گئے ہیں۔ اکثریتی قوم کے طاقت ور عناصر کھل کر دشمنی پر اتر آئے ہیں اور قانون و حکومت کا کوئی خوف ان کو نہیں ہے۔ سرکاری ایجنسیاں بالعموم مسلم دشمن رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے جان و مال پوری طرح غیر محفوظ ہو کر رہ گئے ہیں۔

یہ وہ مختصر کارروائیاں ہیں جو زمانے کے دستور کے مطابق آپ کے لئے ناگزیر ہیں۔ قرآن و سنت کی رہنمائی تو اپنی جگہ ہے، جب آپ کو توفیق ہوگی تو اس کو بھی دیکھنا۔ وہ نہیں تو کم سے کم دنیا میں رائج طریقوں کو اختیار کیجئے۔‌آپ کی یہ کارروائیاں کچھ نہ کچھ تو کام آئیں گی۔ انٹرنیشنل پالیٹکس اور انٹرنیشنل بزنس کی کچھ قدریں اپنا کام دکھائیں گی اور حکومت پر اپنے شہریوں کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے دباؤ بنے گا۔

آپ کے بڑے پن کا لحاظ کرتے ہوئے ہم آپ کو یہ باور کرارہے ہیں کہ آپ کچھ بھی نہ کرکے تاریخ کی بھیانک غلطی کررہے ہیں اور بہت بڑے خطاوار بن رہے ہیں۔ اس طرح کی بے عملی اور ذلت پسندی اللہ کے نزدیک بھی بہت بڑا جرم ہے اور قرآن کے مطابق اس کی جواب دہی بہت سخت ہے، ایسے قصورواروں کا کوئی عذر اللہ تبارک و تعالیٰ تسلیم نہیں کریں گے۔

عدیل اختر
صدر تبلیغ اسلام فاؤنڈیشن، دہلی