Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, April 7, 2022

*سفراء مدارس اور عوامی رویہ*



 *بقلم:پروفیسر ڈاکٹر عبدالحليم قاسمی*
                         صدائے وقت 
=================================
ملک ہندوستان میں مروجہ اسلامی درسگاہیں بہر صورت اسلامی تعلیمات،شناخت، شعار و تحفظ بنی نوع انسانی کی ضامن ہیں،
مدارس کی بقاء، تعلیمی نظام کو مزید مستحکم کرنے کیلئے ذرائع، تدابیر، وسائل، اخراجات، سرمایہ کاری کی فراہمی ناگزیر ہے،
مدارس کی کفالت، انتظام و انصرام کی ضرورت عوام الناس سے وصول کی جائے والی صدقات واجبہ و نافلہ سے ہوا کرتی ہے،
پورے سال میں رمضان المبارک کا مہینہ اس کار خیر کے لئے اہم مانا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام ارباب مدارس رمضان المبارک سے قبل صدقات کی وصولیابی کے لیے اپنا لائحہ عمل طے کیا کرتے ہیں، 
سوشل میڈیا کے اس دور میں ہر سال چندہ وصولی کے سلسلے میں کچھ غیر مصدقہ سفراء کی  بد دیانتی اور بے اصولی کے باعث بدگمانیوں کے ویڈیو بھی وائرل ہوتے ہوئے دیکھنے کو ملے، 
جس کی وجہ سے سفیروں کی غیر معمولی استہزاء کے واقعات اور لوگوں کے منثور و منظوم تاثرات و اظہار خیال بھی آئے دن تحریروں کی شکل میں نظروں کے سامنے سے گزرتے ہیں،
 *سفراء مدارس اور بدگمانیاں* 
اس سلسلے میں بعض اہل علم عوام کو ذمہ دار مانتے ہوئے شکوہ کرتے ہیں کہ سفیروں کی خستہ حالی کے ذمہ دار مسلم عوام ہیں، 
دراصل بد گمانیوں کی اصل وجہ کچھ غیر مصدقہ سفرا کی بد دیانتی اور بے اصولی رہی ہے، 
بصورت دیگر اکثریت عوام نہ صرف سفیروں کی قدر دان ہے بلکہ ایک بڑی دنیاں دار تاجروں کی تعداد عملی طور پر ہر زمانے میں مدارس، مکاتب، مساجد، مقابر، مجالس کے تعاون میں حصہ لیتی رہی ہے،
سچائی یہ ہے کہ ہندوستان میں تمام رفاہی کام انھیں مسلم تاجروں، دنیاں داروں اور خیر خواہوں کی ہی مرہون منت ہیں،

 *صدقات کی وصولی اور گائیڈ لائن*
ہندوستانی تناظر میں مدارس کی کفالت کے پیش نظر بہر صورت ملحقہ مرکزی ادارہ و درسگاہ سے سفیروں کے لیے تصدیق نامہ اور گائیڈ لائن جاری کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، 
بصورت دیگر بہت سی ایسی درسگاہیں جو شرائط کو پورا نہیں کرتیں اور بہت سے ایسے لوگ جن کو اکابرین کا اعتماد حاصل نہیں اس کے علاوہ بہت سی ایسی درسگاہیں جن کا کسی بھی مرکزی ادارہ سے إلحاق نہیں وہ صرف اپنی ذاتی اثر و تعلقات کی بنیاد پر ذخیرہ اندوزی میں منہمک رہتے ہیں ایسی سبھی درسگاہوں پر نگرانی قائم رہے گی،
 *مدارس کا الحاق اور نگرانی*
ہر صوبہ، ہر علاقہ، ہر ضلع، ہر بلاک، ہر تحصیل میں کاربند تمام دینی درسگاہوں کا مرکزی ادارہ سے إلحاق اور پورے نظام تعلیم کی نگرانی انتہائی اہم اور ضروری ہے، 
( *1* )ایسا کرنے سے درسگاہوں کی کاغذی سرپرستی سے قطع نظر عملی مداخلت اور بازپرس قائم رہے گی، 
( *2* ) کسی بھی درسگاہ کا عملی طور پر کسی مرکزی ادارہ سے الحاق کے بغیر چلنا اور چلانا دونوں نامناسب اور غیر قانونی ہے، 
( *3* ) صرف نصاب تعلیم کے اپنانے سے الحاق کے شرائط پورے نہیں ہوا کرتے، 
( *4* ) مرکزی ادارہ اپنے ماتحت ملحقہ اداروں کے تمام تر تعلیمی، مالی، قانونی بازپرس جانچ پڑتال کا حق رکھتا ہے،
( *5* ) الحاق مدارس کا ایک بڑا فائدہ نظام تعلیم کا استحکام اور ملحقہ مدارس کی جوابدہی طے کرنا ہوا کرتا ہے، 
( *6* ) الحاق مدارس کا دوسرا بڑا فائدہ سرپرستی اور ماتحتی کے مابین اشتراک تعاون اور عوامی مقبولیت اور اعتماد بحالی ہوا کرتا ہے، 
 *اہم توجہ* 
علماء کرام کی مرکزی قیادت کو چاہیے کہ تمام چھوٹے بڑے ارباب مدارس سے رابطہ کر مدارس و مکاتب کی کاغذی و قانونی مضبوطی، رجسٹریشن،زمینی اختیارات کی تبدیلی،ضروری ٹیکسز کی ادائیگی، ٹرسٹ و سوسائٹی کی مدت توسیع، مناسب و معقول محاسبی،مناسب دستاویزکاری پر خصوصی توجہ مرکوز کرائیں، 
ادوار کے اختلاف سے حالات مختلف ہوا کرتے ہیں، 
احتیاطی تدابیر کسی بھی ناگہانی سے حفاظت فراہم کیا کرتی ہیں، 
 *صدقات واجبہ اور موجودہ روایت* 
زکوٰۃ کی ادائیگی اور وصولی کے بارے میں ایک عام رجحان بن گیا ہے کہ اس کی ادائیگی اور وصولی کا اہتمام صرف ماہ رمضان میں ہی کیا جاتا ہے، بعض لوگوں کے ذہنوں میں تو غیر رمضان میں زکوٰۃ کی ادائیگی اور وصولی کا تصور ہی دماغ سے نکل گیا، 
دراصل کچھ لوگوں نے رمضان المبارک میں انفاق فی سبیل اللہ کے اضافہ اور ثواب کو بیان کر رمضان میں ہی ایسا محدود کردیا کہ رمضان کے علاوہ زکوٰۃ کی ادائیگی اور وصولی کا رواج ہی تقریباً ختم ہوگیا، 
ضرورت اس بات کی ہے زکوٰۃ کے سسٹم کو حولان حول کے تحت عوام کو اصل حقیقت و نوعیت سے متعارف کراتے ہوئے غیر رمضان میں بھی سال پورا ہونے پر ادائیگی کی طرف توجہ دلائی جائے، 
ایسا کرنے سے رمضان المبارک کے ماہ میں بازاروں، گھروں، دکانوں پر فقراء و مساکین اور عاملین علیہا کی جو بھیڑ دیکھنے کو ملتی ہے وہ پورے سال میں تقسیم ہوجائے گی،
 *دینی خدمات اور ضوابط*
خدمات دین اور صدقات واجبہ دونوں انتہائی حساس اور اصول و ضوابط کے بے پناہ متقاضی ہیں،
ہر شخص انفرادی طور پر بغیر کسی مرکزی ادارے سے إلحاق اور اکابرین امت کا اعتبار و اعتماد اور تحریری اجازت نامہ کے بغیر کیونکر اور کیسے مجاز ہو سکتا ہے، 
 *بد عنوانیاں و بدگمانیاں* 
مشاہدات سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں سرپرستی، نگہبانی نہیں ہوتی وہاں ذاتی مداخلت، من مانی کی وجہ سے کبھی شعوری اور کبھی لاشعوری طور پر بد عنوانیاں ضرور ہوا کرتی ہیں، یہ بھی سچ ہے کہ بد عنوانیوں کا آخری نتیجہ بدگمانیاں ہوا کرتی ہیں، 
سد باب کے لیے اصول و ضوابط پر منضبط کاربند رہنماء اصول ہر شعبہ زندگی میں اعتماد بحالی و ترقی کا ضامن ہے،
*سفراء مدارس اور عوامی رویہ*
ہر دور میں سفراء کی ناقدری کے الزامات عوام پر لگتے رہے ہیں، جبکہ سچائی یہ ہے کہ مساجد، مقابر، مکاتب، مدارس، مجالس اور سارے رفاہی کاموں کی انجام دہی، بھرپور تعاون انھیں دنیاں دار تاجروں اور صاحب ثروت و دولت مندوں کی مرہون منت ہیں،
صدقات نافلہ و واجبہ کی ادائیگی کے لیے خذبہ ایمانی کے ساتھ صاحب ثروت و دولتمند ہونا ضروری ہے،
لھذٰا عوام کے خذبہ ایثار کی سراہنا کرتے ہوئے لوگوں کو رزق حلال اور صاحب ثروت و دولت ہونے اور بننے کی عوامی تبلیغ بھی کرنی چاہیے تاکہ عوام زیادہ سے زیادہ انفاق فی سبیل اللہ کر کار خیر کا ذریعہ بن سکیں،
شکریہ
 *مورخہ 7 اپریل بروز جمعرات 2022*
 *abdulhaleemeumc@gmail.com*
 *WatsApp 9307219807*