Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 15, 2022

*طلباء مدارس اور تقابلی امتحانات*



 *بقلم:پروفیسر ڈاکٹر عبدالحليم قاسمی*
                     صدائے وقت 
=================================
رمضان المبارک کے اختتام کے بعد ہندوستان میں قائم سبھی مکتبِ فکر کی مذہبی تعلیم گاہوں میں تقابلی امتحانات کا دور دورہ ہوا کرتا ہے،
مرکزی مذہبی تعلیم گاہوں میں سال آخر کی تکمیل کی غرض سے خواہشمند طلباء کی ایک بڑی تعداد طبع آزمائی کے لیے رخصت سفر باندھ کر اپنی قسمت اور زور آزمائی کے لیے تعلیم گاہوں کا رخ کیا کرتی ہے،
درس نظامی کے حامل درسگاہوں میں طالب علموں کے لیے شہرہ آفاق ام المدارس ازہر ہند دارالعلوم دیوبند پہلی پسند ہوا کرتا ہے،

 *عدم انتخاب اور طلباء کے رجحانات*
باوجود بسیار کوشش اور جدوجہد بعض اوقات بہت قابل اور لائق محنتی، مستحق اور کریم طلباء کے ناموں کا انتخاب عمل میں نہیں آپاتا، ایسے بہت سارے طلباء نامراد اور تشویش کا شکار ہو کر کبھی اپنی قسمت اور کبھی جہد مسلسل اور کبھی اپنی تیاریوں کو دوش دیتے ہوئے دوسرے مدارس کا رخ کیا کرتے ہیں،

 *غیر منتخب طلباء اور انداز فکر*
 اپنی بہتر کارکردگی، تیاری، استحقاق اور علمی لیاقت کے باوجود جو طلباء مرکزی اور اپنی پسند و خواہش کے اداروں میں منتخب ہونے سے رہ جاتے ہیں انکو کبھی بھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئے،
( *1* ) اگر وقت اور حالات موزوں اور موافق ہوں تو آئندہ پھر زور آزمائی کے لیے تیاری شروع کر دینی چاہیے،
( *2* ) کسی بھی طرح اپنے کو دوسرے ایسے تمام طلباء جن کا انتخاب باوجود کم صلاحیت یا زور صلاحیت کی بنیاد پر عمل میں آیا ان سے مقابلہ آرائی کر احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئے،
کوششوں کے ساتھ ساتھ قسمت اور مشیت الہی بھی کارفرما ہوا کرتی ہے، 
( *3* )جن کا انتخاب عمل میں آیا ان کو برتر سمجھنا اور جو کنھیں بھی وجوہات کی بنا پر منتخب ہونے سے رہ گئے ان کو کمتر سمجھنا نہ صرف شریعت کے خلاف بلکہ حقیقت اور سچائی کے بھی منافی ہے، 
دور حاضر میں بہت سے ایسے علماء کرام جو غیر مشہور علاقائی تعلیم گاہوں سے فارغ ہونے کے باوجود اپنے فضل و کمال اور ذاتی محنت و کوششوں کی بنیاد پر غیر معمولی شہرت حاصل کرنے میں نہ صرف کامیاب بلکہ اپنی صلاحیتوں سے زمانہ کو قائل بھی کیا ہے،
 دراصل حصول علم کے بعد ہی کی  زندگی قربانیوں کی متقاضی ہوا کرتی ہے، 
( *4* )سرپرستوں ،والدین، سابق اداروں کے متعلقہ اساتذہ کرام کو بہرحال ایسے تمام طلباء کرام جو منتخب ہونے اور آزمائش سے رہ گئے انکی ہمت افزائی، بہتر مشورہ اور رہنمائی ضرور کرنی چاہیے،اس سے جہاں ایک طرف طلباء کے اندر کافی حوصلہ دیکھنے کو ملتا ہے وہیں دوسری طرف طلباء و اساتذہ کے مابین تعلقات مضبوط ترین اور پروان چڑھنے کے ساتھ اعتماد بحال ہوا کرتے ہیں،
( *5* )دنیا جہان کہیں بھی کسی ملک کے طریقہ تعلیم کی درسگاہوں میں سبھی خواہشمند طلباء کا انتخاب و داخلہ آرزو، حسرت، رغبت کی بنیاد پر صد فیصد کسی ایک درسگاہ میں ممکن نہیں ہوا کرتے،
( *6* )ہر طریقہ تعلیم کی درسگاہوں میں تقابلی امتحانات بطورِ خاص میڈیکل NEET میں  قسمت آزمائی، زور آزمائی دوسری، تیسری، چوتھی پانچویں مرتبہ ٹرائی کرنے کی بیشمار مثالیں ہم سبھی کے سامنے ہیں، 
اس لیے محنت اور بار بار کی آزمائشوں سے گھبرانا نہیں چاہیے، 

 *ذاتی تجربہ اور طلباء مدارس کی احساس کمتری*
1994 میں جب دارالعلوم کا سفر تقابلی امتحانات میں شامل ہونے کے لئے ہوا اس وقت کچھ رفیق درس منتخب ہونے سے رہ گئے،جن کا داخلہ نہیں ہوا وہ بیچارے اپنے عدم انتخاب پر اتنے نادم وشرمندہ بلکہ بعض تو ڈپریشن اور احساس کمتری کا شکار اس انتہاء تک ہو گئے کہ انکی سابقہ علمی لیاقت اور تعلیمی دلچسپی بھی روز بروز بتدریج  کم ہوتی چلی گئیں،خواہی نخواہی برائے نام سند فضلیت دوسرے مقامی اور غیر مشہور اداروں سے حاصل کر وطن واپسی کر دوسرے مشاغل میں مصروف عمل ہو گئے،

 *مدارس کے مابین حد امتیاز اور تفریق قائم کرنا،*
تعلیمی معیار، اداروں کی روحانیت، اساتذہ کا امتیاز اور دیگر خوبیوں سے انکار ممکن نہیں،
لیکن ان تمام خصوصیات و خوبیوں کو لیکر غیر منتخب طلباء کے مابین احساس کمتری کا شکار نہیں ہونے دیا جانا چاہئے، 
دارالعلوم دیوبند قدیم و جدید اور دیگر اداروں سے فراغت کو لیکر بھی طلباء تو کجا بعض علمی فراست و سمجھ بوجھ کے متحمل اساتذہ کرام کے اندر حدِّ امتیاز اور تفریق، بھید بھاؤ اس قدر پنہاں ہوا کرتا ہے کہ ایسے تمام طلباء جو دارالعلوم قدیم کی آغوش میں پرورش پانے سے قاصر رہ گئے ان کو دوسرے مدارس کی رہنمائی کے بجائے احساس دلانے  میں معاون ثابت ہوا کرتے ہیں،
کسی بھی درسگاہ کی عملی گنجائش کا اتنا وسیع تر ہو جانا کہ وہ تمام تر عقیدتمندوں کو اپنی آغوش میں پرورش دے سکے یہ نہ صرف ناممکن بلکہ محال ہے،
اس لیے عزم و حوصلہ، استقلال کے ساتھ حسبِ گنجائش و حالات آئندہ تیاری کرنے یا دوسری تعلیم گاہوں میں وقت کو ضائع کئے بغیر داخلہ لینے کی تیاری شروع کرنے کی ترغیب دی جانی چاہیے،

*طلباء مدارس سے گزارش*
جو طلباء اپنی خواہش کے مطابق باوجود کوششوں کے مرضی کا ادارہ منتخب کرنے میں ناکام رہے انھیں باالکل مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، دنیاء کارساز میں سبھی چیزیں بہرحال کسبی ہیں،
 اپنی محنت، جہد مسلسل پر یقین کرتے ہوئے خالقِ کائنات پر توکل اور مشییت الٰہی پر بہر صورت بھروسہ کرنا چاہیے،
اپنے یقین کو مزید پختہ اور عزم و حوصلہ کو بلند سے بلند کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنا چاہیے،
دنیا میں ہر کام خواہشات کے مطابق نہیں ہوا کرتے،
کوشش انسان کا کام ہے کرتے رہنا چاہیے،
نتیجہ خیز بنانا خالقِ کائنات کا کام ہے،
عدم انتخاب اور داخلہ نہ ہونے کی صورت میں اداروں کے انتظام و انصرام پر انگشت نمائی کرنا، بہتان تراشی کرنا، سوشل میڈیا پر منتظمین ادارہ کے تئیں امتیازی سلوک کی الزام تراشی کرنا بھی توہین علماء و ادارہ کے مترادف ہے،
طالبین علم نبوت کے لیے غیر معیاری حرکات و سکنات کسی بھی طرح مناسب نہیں،
اپنے منصب و مقام کو خود پہچاننا آپ کے فرض منصبی میں داخل ہے ،
شکریہ
 *مورخہ 15 مئی بروز اتوار 2022*
 *رابطہ 9307219807*
 *abdulhaleemeumc@gmail.com*