Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 25, 2022

*مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب کابہار ریاستی حج کمیٹی کی رکنیت سے استعفی افسوس ناک


تحریر /مظاہرحسین عماد عاقب قاسمی
پٹنہ 25میی (پریس ریلیز)
                       صدائے وقت 
=================================
یہ بات گردش میں ہے کہ  مفتی  محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب  نےبہار ریاستی حج کمیٹی کی رکنیت قبول کرنے سے امیر شریعت کے حکم کی وجہ سے  انکار کر دیا ہے ، یہ انتہائی افسوسناک عمل ہے۔
بعض حضرات ان کے اس انکار کو بہت سراہ رہے ہیں ، 
 ایک صاحب نے مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کے اس انکار کو عظیم ایثار اور فراست و ذہانت سے تعبیر کیا ہے اور اس پر دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد بھی دیا ہے ، اور انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حضرت امیر شریعت سابع رح ( حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب رح) کو وزیر اعلی کے عہدے کی بھی پیش کش ہوئی تھی ، 
  یہ اندھ بھگت ہی یقین کریں گے کہ امیر سابع رح  کو وزیر اعلی کے عہدے کی پیش کش ہوئی ہو ، 
دو ہزار بیس کے اسمبلی  انتخابات میں جنتادل یونائیٹڈ  کے گیارہ مسلم امیدواروں میں سے کوئی کامیاب نہیں ہوا تب اگر نتیش چاہتے تو اپنی پارٹی کے کوٹے سے اپنی پارٹی کے پانچ چھ مسلم ممبران لیجیسلیٹیو کونسل ( ایم ایل سی)  میں سے کسی ایک یا دو کو وزیر بناسکتے تھے ، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا ، انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کیا ، بہوجن سماج پارٹی کے اکلوتے ممبر زمان خان کو وزارت کا لالچ دے کر اپنی پارٹی میں شامل کرلیا ، اپنے اس عمل سے انہوں نے اپنی پارٹی کو تھوڑا مضبوط بھی کیا ، اور برائے نام ہی سہی مسلم نمائندگی کا دکھاوا بھی کردیا ،
ایسے لوگ امیر شریعت سابع کو وزیر اعلی کا عہدہ کیسے دے سکتے ہیں ، 
لالو پرشاد سے بھی یہ امید نہیں ہے کہ وہ امیر سابع کو وزارت علیا کا آفر کریں گے ، 
لالو پرساد کی خوبی صرف اتنی ہے کہ وہ نڈر اور بے باک ہیں ، اور ہندوستان کے  مشہور ہندو لیڈران میں   آر ایس ایس کے سب سے بڑے دشمن ، 
انہوں نے بھی  اپنی پندرہ سالہ  حکومت میں کبھی بھی  مسلمانوں کو مکمل نمائندگی نہیں دی ، 

 *بعض حالات میں بعض عہدوں کو قبول کرنا فرض اور واجب ہوجاتا ہے ،* 
 *اور نہ قبول کرنا حرام اور مکروہ تحریمی ،* 
ہمیں نہیں معلوم کہ مفتی ثناء الہدی صاحب نے کن حالات میں بہار ریاستی حج کمیٹی کی رکنیت قبول کرنے سے انکار کیا ہے ، 
 *میرا خیال یہ ہے کہ مفتی ثناء الہدی قاسمی  صاحب کو یہ عہدہ قبول کرلینا چاہیے* ، بلکہ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ اگر مولانا مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کی جگہ کسی کم اہل یا نا اہل کو یہ رکنیت دی گئی اور اس نے کوئی غلط فیصلہ لیا تو اس کا وبال بھی مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب پر ہوگا ،
 
میرا خیال یہ ہے کہ اگر ان کے اس طرح کے اہم اداروں کی رکنیت قبول کرنے سے امیر شریعت بہار و اڑیسہ و جھارکھنڈ  ناراض ہوتے ہیں ، اور سمع و طاعت کا کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کو چاہیے کہ وہ امارت شرعیہ سے الگ ہو جائیں اور آزاد ہوکر امت کی خدمت کریں ، یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ، 
جس ایثار و قربانی سے امت میں گمراہی پھیلنے کا اندیشہ ہو وہ ایثار و قربانی ممدوح نہیں ہے ، جو حضرات مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کے حج کمیٹی کی رکنیت قبول  نہ کرنے پر مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کی تعریف کر رہے ہیں وہ بڑے خود غرض ، تنگ دل ، اور کم نگاہ معلوم ہوتے ہیں ، ان کے اندر اوسط درجے کی بھی دور بینی اور دور اندیشی نہیں ہے ، 
مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کو چاہیے کہ وہ مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی صاحب کے مضمون " سرکار کے ذریعہ قائم کردہ کمیٹیوں میں شمولیت اور اس کے حدود '' کا مطالعہ فرمائیں اور جبال علم و تقوی امیر شریعت رابع مولانا سید منت اللہ رحمانی صاحب رح اور مولانا نور اللہ رحمانی صاحب رح کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حج کمیٹی کی رکنیت ضرور قبول کرلیں ، اور جہاں جہاں بھی رکنیت ملے اسے قبول کرتے چلے جائیں ، علم و  اخلاص اور فہم  و تقوی ان کا شعار ہے ،اور امید ہے بلکہ یقین ہے کہ وہ جہاں بھی رہیں گے اس سے امت کو بہت فائدہ ہوگا ، 
سنت یوسفی یہ بھی ہے کہ انسانیت کے فائدے اور تبلیغ دین کے مقصد سے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہونے کی کوشش کی جائے ،
مجھے بہار میں مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب سے زیادہ عالم و فاضل کوئی نظر نہیں آتا ہے ، 
ہوسکتا ہے کچھ لوگ تقوی میں ان سے زیادہ ہوں ، یا علم میں زیادہ ہوں مگر قیادت و سیادت کے لیے جتنے علم و فہم اور دور اندیشی کی ضرورت ہوتی ہے ، اس پر  مفتی ثناء الہدی صاحب سو فیصد پورے اترتے ہیں ، وہ ادیب بھی ہیں اور عالم بھی ، مفتی بھی ہیں اور منتظم بھی ، 

حج کمیٹی کی رکنیت تو بہت چھوٹی چیز ہے ،  انہیں تو حج کمیٹی کا چیر مین مقرر کرنا چاہیے تھا تاکہ وہ  حج کمیٹی کو  امت کے لیے  اور زیادہ مفید بناسکیں ،

نتیش کمار صاحب اپنی خود غرضی اور حب جاہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ضرور ہیں ، مگر ان کی سترہ سالہ حکومت کے تجربے سے یہ بات بھی واضح ہے کہ وہ کسی نہ کسی حد تک مسلمانوں کا بھلا سو چتے رہتے ہیں ، اور حق دار تک حق پہونچانے کی کوشش کرتے ہیں ، 
اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایثار و قربانی کا راستہ اب ترک کریں ، اور جہاں بھی جس چھوٹے یا بڑے عہدے پر فائز ہونے کا موقع ملے اس پر فائز ہو جائیں اور خلوص و ایمانداری سے اس عہدے پر کام کریں