Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, June 9, 2022

امارت پبلک اسکول ___


از / مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ. 
                           صدائے وقت 
=================================
 امارت شرعیہ نے اپنے قیام کے وقت سے ہی بنیادی دینی تعلیم کے لیے مکاتب قائم کیے، لیکن عصری تعلیمی اداروں کے قیام کی طرف اکابر کی توجہ تھوڑی تاخیر سے ہوئی، اس تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ فطری طور پر مسلمان عصری تعلیم کی طرف راغب تھے، اور جگہ جگہ عصری تعلیم کے ادارے کام کر رہے تھے، جن سے مسلمان بچے بچیوں کی تعلیمی ضرورت پوری ہو رہی تھی۔
 امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ نے محسوس کیا کہ جن عصری تعلیمی ادارں میں ہمارے بچے جا رہے ہیں، وہاں نہ تو اسلامی ماحول ہے اور نہ ہی بنیادی دینی تعلیم کا نظم ، اس لیے حضرت نے عصری تعلیم کا پہلا اسکول قاضی نور الحسن میموریل اسکول کے نام سے کھولنے کی منظوری دی قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ اس کے پہلے سکریٹری ہوئے اور انہوں نے امیر شریعت کی حسب منشا اس میں رنگ بھرنے کا کام کیا ، یہ ادارہ ترقی کرتا رہا ، امیر شریعت سابع نے بچیوں کی بڑھتی تعداد اور مقامی ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے اسے خالص لڑکیوں کا ادارہ بنا دیا، اس کی عمارت بہت مخدوش تھی اور خطرہ تھا کہ کوئی حادثہ نہ ہوجائے، اس لیے حضرت امیر شریعت سابع ؒ مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒنے اس کی تعمیر نو کا فیصلہ لیا اور الحمد للہ امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کی توجہ سے اس کی عمارت بن کر تیار ہو گئی ہے اور جلد ہی وہاں تعلیمی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
 حضرت امیر شریعت رابع ؒ کے دور میں ہی مدرسہ معراج العلوم آسنسول قائم ہوا، جو بعد میں ترقی کرکے ام، ام یو ہائی اسکول ہو گیا، حضرت امیر شریعت سابع مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی ؒ نے ایک بار مجلس میں مجھ سے دریافت کیا کہ ایم ایم یو کا پورا نام کیا بنتا ہے، میں نے کہا مدرسہ معراج العلوم اردو ہائی اسکول، فرمایا کہ مدرسہ اور اسکول کا جوڑ ایک ساتھ تو سمجھ میں نہیں آتا، میں نے عرض کیا کہ ایم ایم یو ہائی اسکول کا فل فارم مولانا منت اللہ رحمانی اردو ہائی اسکول بھی ہو سکتا ہے، بہت خوش ہوئے اور حکم میں لکھا کہ مولانا ثناء الہدیٰ کی تجویزکے مطابق اب اس اسکول کاپورا نام مولانا منت اللہ رحمانی اردو ہائی اسکول ہر کاغذ پر درج کیا جائے، تب سے یہی نام رائج ہے، یہاں ہائی اسکول تک کی معیاری تعلیم ہوتی ہے، لڑکے اور لڑکیوں کے کلاس الگ الگ ہوا کرتے ہیں، یہ اسکول آسنسول کے اسکولوں میں تعلیمی اعتبار سے بہت ممتاز ہے، کم فیس ، اسلامی ماحول، دینی تربیت ، بنیادی دینی تعلیم اردو میڈیم اس ادارہ کی شناخت اور پہچان ہے۔
 اس سلسلے کو آگے بڑھانے کا خیال حضرت امیر شریعت سابعؒ کے ذہن میں اللہ نے ڈالا انہوں نے عصری تعلیم کے لیے پرائمری سطح کے اسکولوں کا خاکہ بنایا، منصوبہ سازی کی ، نام پر گفتگو شروع ہوئی تو اللہ نے میرے ذہن میں ایک نام ’’امارت پبلک اسکول‘‘ ڈالا اور حضرت امیر شریعت رحمۃ اللہ کو یہ نام پسند آگیاحضرت امیر شریعت نے ان دونوں اسکول کا ذمہ دار مجھے بنایا اور مقامی طور پر دونوں جگہ نگرانی کے لیے مولانا ابو الکلام معاون ناظم امارت شرعیہ کو نامزد ، چنانچہ نگری پسکا رانچی اور گریڈیہ ، بھنڈارا ڈیہ میں پہلے سے تعمیر شدہ عمارت میںا س نام سے ادارہ کھولا گیا ، تعلیم کے آغاز کے لیے حضرت نے دونوں جگہ کا سفر کیا اور بڑے اجلاس سے خطاب کیا اور الحمد للہ کام چل نکلا، اور اب دھیرے دھیرے وہاں کے درجات میں اضافہ ہو رہا ہے، حضرت امیر شریعت سابع ؒ نے اربا میں اپنے آخری سفر میں ایک اور اسکول کی بنیاد رکھی اور اس کا نام ’’امارت انٹرنیشنل اسکول‘‘ تجویز فرمایا۔
 حضرت کے وصال کے بعد امیر شریعت ثامن حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم نے امارت شرعیہ کے جن کاموں کو ترجیحی بنیاد پر اولیت دی ان میں ’’امارت پبلک اسکول‘‘ کے منصوبے کی توسیع شامل ہے، حضرت کے دور میں کٹیہار، پورنیہ، کٹک اور اربا(رانچی) میں معیاری ادارے کا قیام عمل میں آچکا ہے، ان جگہوں میں طلبہ وطالبات کثرت سے داخل ہیں، ترانہ اور جاتے وقت ان کا اجتماع دیکھ کر دل میں خاص سرور وکیف پیدا ہوتا ہے، حضرت کی ہدایت ہے کہ ان بچوں کو پورے طور پر اسلامی ماحول ، دینی تربیت اور بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ آگے بڑھایا جائے، حضرت کی خواہش ہے کہ ان کے یونی فارم میں بھی اس کا خیال رکھا جائے ، ہاف پینٹ اسکاٹ اور ٹائی کے استعال سے یونی فارم میں گریز کیا جائے۔
 حضرت دامت برکاتہم نے اسکول ومدارس ، مکاتب کے نصاب پر نظر ثانی کے لیے بھی چند افراد کی مختصر کمیٹی بنائی ہے جو نصاب پر نظر ثانی کرکے اسے موجودہ حالات کے مطابق عصری تقاضوں کے مطابق ترتیب دے گا ، جلد ہی اس سلسلہ کی میٹنگ ہوگی اور حضرت کے ذہن میں ان اداروں کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا جو منصوبہ ہے وہ عملی طور پر ہمارے سامنے آئے گا اور ہم نئی نسلوں کے دین وایمان اور اسلامی افعال و اقدار کے تحفظ میں انشاء اللہ کامیاب ہوں گے ۔