Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 23, 2022

گاؤں کی باتیں بادل پھر روٹھ گیا، ابھی تک کھل کر بارش نہیں ہوئی

 
از /حمزہ فضل اصلاحی /صدائے وقت 
==================================
 پوروانچل میں اس بار جانے کیاہواہے؟ گھر گھر کربادل آتے ہیں چند بوندیں برساکر خاموشی سےچلے جاتے ہیں،اب یہی دیکھئے کہ آدھے سے زیادہ برسات کا موسم گزر گیا ہے، ابھی تک کھل کر بارش  ہوئی ہی نہیں۔ندی ابھی تک ندی نہیں بن سکی ہے،جوان نہیں ہوسکی ہے، ڈری سہمی اورسمٹی سمٹی سی ہے،ندی کی یہ حالت دیکھ کر ایسا لگتا ہےکہ یہ اگست نہیںں بلکہ جون کا مہینہ ہے۔ اگست میں تو ندی کہاں سے کہاں پہنچ جاتی تھی؟اطراف کے کھیتوں کو نگل جاتی تھی۔ دور دور تک پانی ہی پانی نظر آتا تھا،ٹرین کے سفر کے دوران الٰہ آباد کے پل سے بپھری ہوئی  جمناکو دیکھ کر مسافرسہم جاتے تھے۔حال ہی میں ممبئی آنے والے ایک نوجوان کا کہنا ہے کہ اس بار بھی جمنا ندی  دیکھی، حالت پتلی تھی اس کی، دبلی پتلی تھی ، اسے پہچاننا مشکل ہوگیا تھا، ایسا لگ رہا ہے کہ یہ کوئی برساتی نالا ہے۔
       تال تلیا اور پوکھروں کا بھی یہی حال ہے،ان میں بہت کم پانی جمع ہوا ہے۔ ان کے چھلکنے کی بہت کم امید ہے۔ادھر ایک ہفتے سے گھنے بادل آتے ہیں، شور مچاتے ہیں،گرجتے چمکتے ہیں،ان کی آمد پر اندھیرا بھی چھا جاتا ہے مگر ہوتا ہواتا کچھ نہیں،کچھ دیر بعد آندھی آتی ہے، بادلوں کو  اپنے دوش پر لئےپھرتی ہے، اپنی انگلی پر نچاتی ہے، ادھر سے ادھر لے جاتی ہے۔پھرانہیں ٹکڑوں میں بانٹ کر یہاں وہاں چھوڑ جاتی  ہے۔ اس طرح موسم خوشگوار تو ہوجاتا ہے مگر آسمان سے ایک بھی قطرہ نہ گرنے سے مایوسی پھیل جاتی ہے۔کسان کامنہ  اور لٹک جاتا ہے۔
       اب پیاسی زمین کی پیاس بڑھتی ہی جارہی ہے۔دھان کی فصل سوکھ رہی ہے یاکمزور ہوتی جا رہی ہے۔کچھ کھیتوں میں کسی مریض کے چہرے کی طرح دھان کا پودا پیلا ہوتاجارہا ہے۔یہی حال رہا تو ایک دن سب سوکھ ساکھ جائے گا، پیلا پڑجائےگا، پھر لوگ کھائیں گے کیا؟ کہاں سے چاول لائیں گے؟ کچھ کسان دھان کی جرئی( بیج) ڈال چکے تھے مگر موسم کی بے رخی دیکھ کر  وہ دھان کی روپائی کی ہمت نہیں کر  پارہےہیں۔نہر کنارے کے کھیتوں میں دھان لہلہارہے ہیں مگر کب تک؟ دھان کی فصل کے لئے بونداباندی ضروری ہے۔
       اعظم گڑھ کے گاؤں کرولی خورد کے ابوحاتم اعظمی کی نظر میں دھان کی اچھی فصل کیلئے بارش بے حد ضروری ہے، بلکہ اکسیر ہے۔وہ بتاتے ہیں:’’بارش نہیں ہوگی تو کسان کیا کرے گا؟ بے چارہ ٹیوب ویل وغیرہ سے سنچائی کرے گا ہی، سچ پوچھئے تو مجبوری میں ٹیوب ویل سے دھان کی سنچائی کردی جاتی ہے لیکن اس کا نقصان بھی ہے۔اس طرح سنچائی سے دھان کی جڑ میں کائی جمع ہوجاتی ہے جس سے اس کی نشوونما رک جاتی ہے،دھان کا پودا بڑھ نہیں پاتاہے، اس کی سور(جڑ) موٹی نہیں ہوپاتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ڈھیر سارا پانی اچانک جمع ہوجاتا ہے، اتنا کہ زمین جذب نہیں کرپاتی ، یہ کھیت کی سطح پر رہ جاتا ہے، دھوپ ہونے پر یہی پانی گرم ہوجاتا ہے، اس سےدھان کی فصل  مار کھاتی ہے ۔اس کے مقابلے میں بارش کا پانی دھیرے دھیرے گرتا ہے، اس کی بوندیں اوپر سے گرتی ہیں، مسلسل زمین میں جذب ہوتی ہیں۔یہ بارش’ ٹانک‘ کی طرح ہوتی ہے،اس طرح دھان کی جڑ میں کائی لگنے کا امکان نہ کے برابر رہتا ہے،اس پانی کی تاثیر ہی الگ ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ یہ خالص پانی ہوتا ہے، یہ دھان کے پودے کو واقعی ’دھانی‘ بنادیتا ہے، اس پر رنگ چڑھ جاتا ہے، سیاہی مائل ہوجاتاہے۔  ایک دن اس کا پودا اتنا موٹا ہوجاتا ہے کہ ایک ہاتھ سے پکڑنا مشکل ہوجاتا ہے،مٹھی میں نہیں سماتا ۔ ‘‘  وہ بارش کا ایک اورفائدہ بتاتےہیں :’’ بارش کے قطرے دھان کو اوپر سے نیچے تک دھل دیتے ہیں، اس طرح روگ ووگ سب بہہ جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں دھان  کیڑے  سے محفوظ رہتا ہے،پکنے سےپہلے تک لہلہاتا ہے۔‘‘
        کالم نگار نے جو نپور کے منیچھا گاؤں  کے صحافی  حاجی ضیاءالدین  سے باتوں ہی باتوں میں پوچھا:’’ کیا پہلے بھی اس طرح بادل روٹھ جاتاتھا ،   اتنے دنوں تک بارش کاسلسلہ رکتاتھا کبھی ؟‘‘اس کے جواب میں وہ بتاتےہیں:’’ میں سمجھتاہوں کہ ۹۰ءکے  بعد سے بارش کم ہونے لگی ہے  ۔ اس سے    پہلے تو  بارش ہی کے پانی سے دھان کے کھیت سیراب ہوتے تھے ، ٹیوب ویل  ویوب ویل تھانہیں ، لے دے کر  تالاب اور ندیاں تھیں، ارے بھئی !نہریں بھی نہیں تھیں۔ پوکھرے میں بارش کا پانی جمع رہتا تھا، جب کبھی ہفتہ دس دن بارش نہیں ہوتی تھی تو قدیم اور روایتی ذرائع سے دھان کے کھیتوں کی پیاس بجھائی جاتی تھی۔ کئی کئی کلومیٹر دور کھیتوں میں کچی نالی سے پانی جاتا تھا ۔ اس وقت اچھی فصل ہوتی تھی ۔ کبھی کبھا ر ہی ایسے تالاب والاب سے پانی دینے کی نوبت آتی تھی۔    جیسے ہی ٹیوب ویل آیا ، نہریں کھودی جانی لگیں ، لو گ اللہ سے زیاد ہ خود پر بھر وسہ کرنے لگے ،پانی کا بے دریغ استعمال کرنے لگے۔ جنگلا ت کٹنے لگے ، ایک ایک کرکے تالاب اور پوکھرے ’پاٹے‘ جانے لگے ۔ پھر  اس کےنتیجے میں جوکچھ ہو ا، سب آپ کے سامنے ہے ۔   دیکھئے کس طرح کسان بھائی  پریشان ہیں، بے صبری سے بارش کا انتظار کررہےہیں۔ ‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے :’’ نہروں کی وجہ سے دھان کی کھیتی  پہلے سےزیادہ ہونے لگی ہے ،اس سال بھی نہر کنارے کی دھان کی فصلیں اب تک’ ٹھیک ٹھاک ‘ہیں لیکن  بارش میں مزید تاخیر ہوئی تو  یہ بھی برباد ہوجائیں گی۔‘‘
           ان کے بقول :’’ اب اپرے والا کچھ کے سکے تھے، نچے والے کل کے کے تھک گئن ہیں۔‘‘(  اب اوپر والا ہی کچھ کرسکتا ہے، نیچے والے سب کچھ کرکے تھک ہارچکےہیں۔)