Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 26, 2022

آہ! مسجد کاایک سچا خادم چلاگیا



از /ڈاکٹر مولانا محمدعالم قاسمی
امام وخطیب جامع مسجد دریاپور،سبزی باغ، پٹنہ
Mob : 9534286657
                           صدائے وقت 
=================================
اس دنیائے فانی میں کسی کوثبات وقرار نہیں ، ہرچیز کوفنا ہونا ہے۔جو بھی آیا ہے اسے ایک دن جانا ہے۔ اورکب جانا ہے یہ کوئی نہیں جانتا ۔شعر:
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود کچھ لوگ ایسے رخصت ہوتے ہیں کہ ان کی جدائی سے غم نہیں بلکہ غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے، وقت بڑے سے بڑے زخم کومندمل کردیتا ہے۔ مگر کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں کہ اس کے مند مل ہونے کے لئے ایک مدت درکارہوتی ہے۔ موت ایسی حقیقت کہ اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔شعر:
موت سے بھلا کس کو رستگاری ہے
آج ان کی کل ہماری باری ہے
آج تک کوئی ایسی تحقیق نہیں ہوئی جس سے انسان کی عمر کا اندازہ کیا جاسکے کہ یہ کتنے دن اس دنیا میں رہے گا، آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ بچے، بوڑے، جوان ہر عمر کے لوگ جارہے ہیں۔ موت کا کوئی علاج نہیں ، جب ، جس وقت ، جہاں اورجس بہانے موت آنی ہے اسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔ شعر:
کہانی ہے تو اتنی ہے خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہو اور آدمی افسانہ بن جائے
ایسی ہی ایک موت جامع مسجد دریاپور سبزی باغ پٹنہ کے مؤذن ابوفتح مرحوم کی ہوئی جو چند منٹوں میں اس دنیا سے دوسری دنیا میں چلے گئے، لوگ دم بخود رہ گئے نہ کچھ بول سکے نہ سوچ سکے کہ پل بھر میں کیا سے کیاہوگیا۔ شعر:
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
۲۱؍ستمبر ۲۰۲۲ ء کو فجر کی نماز کے بعد کے تمام معمولات پورا کرکے سبزی باغ چوراہے سے گھوم کر بارہ بجے دن میں مسجد آکر صفائی ستھرائی کرکے مسجد کو نمازیوں کے لئے آراستہ کردیا، اورخود غسل مکمل کرکے صاف کپڑا زیب تن کیا اوراچانک بے چینی محسوس کی اس وقت چارنمازی مسجد میں موجود تھے وہ دوڑکر گئے پانی پلایا ایک گھونٹ پیا اورآنکھیں موند لیںبظاہر صرف شوگر کامرض تھااورحرکت قلب بند ہوگیا۔لوگ گھبرا ئے کچھ بولنے کی ہمت نہیں کی اٹھاکر پی ایم سی ایچ کے ایمرجنسی وارڈ لے جایاگیا اورڈاکٹر نے تصدیق کیاکہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ یہ سنتے ہی پورے محلہ میں کہرام مچ گیا، جن کی آنکھیں کبھی نم نہیں ہوئی تھیں وہ نوجوان اوربوڑھے بھی بلک بلک کررونے لگے، غیر مسلم مرد عورتیں بھی آکر افسوس ظاہر کرنے لگے، پورے محلہ کے ہرگھر میں سناٹا چھاگیا اورآن واحد میں ایک اژدہا م جمع ہوگیا۔ لہٰذا بعد نماز مغرب نماز جنازہ میں اتنی بڑی تعداد جمع ہوگئی کہ تل رکھنے کی جگہ نہیں رہی، مسجد سے چند قدم لنگرٹولی چوراہے تک جنازہ پہنچنے میں آدھ گھنٹہ لگ گیا پھر ایک بڑے قافلہ کے طورپر نصف درجن گاڑیوں کے ہمراہ انہیں ان کے آبائی گاؤں لیجاکر ۱۱؍ بجے شب میں اس علاقوں کے ہجوم کی موجودگی میں گاؤں کی مسجد کے داخلی دروازے سے متصل عام قبرستان میں سپردخاک کر دیاگیا۔ ایک مؤذن کے لئے لوگوں کے دلوں میں ایسی محبت وابستگی اورآنکھو ں میں نمی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے یہ بلاشبہ اللہ کے یہاں مقبولیت کی علامت ہے۔
واضح ہوکہ جناب ابوفتح مؤذن مرحوم کی ولادت ۳۰؍مئی ۱۹۶۰ء کو موضع جاناتھانہ استھانواں ضلع نالندہ میں ہوئی۔ ان کے والد کانام عبدالکلیم اوروالدہ کانام رسول باندی ہے، نانیہال بھی گاؤںمیں تھی، اکلوتے تھے کوئی بھائی نہیں تھا صرف دوبہنیں ہیں۔ ان کی شادی اسی علاقہ کے قمص پور ضلع نالندہ میں جناب بدرالدین کی صاحبزادی سے ہوئی۔ جن سے تین صاحبزادے حافظ مولانا معظم ثاقب قاسمی جو فاضل دیوبند اورامارت شرعیہ سے افتا وقضا کیے ہیں دوسرے حافظ مولانا محمد طاہر یہ ہتھوڑہ باندہ یوپی سے فارغ التحصیل ہیں اورتیسرے حافظ محمد طیب ہیں، جبکہ دوصاحبزادی میں بڑی رقیہ کی شادی ہوچکی ہے چھوٹی طیبہ غیرشادی شدہ ہے۔ اورایک لڑکے کی بھی شادی ہوچکی ہے ۔
کوئی سند یافتہ نہیں تھے، مگر علماء کی صحبت سے بہت کچھ جانتے تھے، اہل علم کی بڑی قدر کرتے ملاقات پرفوراً عطر پیش کرتے، ضیافت کرتے اورخندہ پیشانی سے ملتے، اسی قدردانی کے باعث ان کے تینوں لڑکے حاظ قرآن اورعالم دین ہوئے اوراوردوبھانجہ کوبھی حافظ قرآن بنایا۔ شریعت کے پابند تھے نیک اورپرہیز گار تھے،مسجد سے والہانہ لگاؤ تھا، اس لئے اپنی خدمت کامیدان مسجد ہی کوچنا پہلے پٹنہ سیٹی کی ایک مسجد میں تین سال خدمت کی، پھر مکھنیا کنواں پٹنہ میں آٹھ سال رہے اور1996 ء سے جامع مسجد دریاپور سبزی باغ میں مؤذن کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے تھے۔ اس سے تین سال قبل 1993 ء میں یہاں میں بحیثیت امام بحال ہوچکاتھا۔اس وقت مسجد کے سکریٹری جناب احمدقاسم تھے جوجناب حماد قاسم کے والد گرامی تھے ۔2001 میں ان کا انتقال ہوا، ان کے بعد 2018 تک جناب حماد قاسم سکریٹری رہے۔ پھر موجودہ سکریٹری جناب محمد ارشد عالم یہ سب لوگ ان کا بہت خیال رکھتے اورجو مشورہ دیتے اس کے مطابق عمل کرتے مسجد کی فکر ہمہ وقت رہتی اورہمیشہ مسجد کے مفاد میں سوچتے ، مسجد کے ایک ایک چیز کی حفاظت اورنگرانی ہروقت کرتے وہ مسجد کی خدمت ملازمت کے طورپر نہیں بلکہ عبادت اورنیکی سمجھ کرکرتے، وہ مسجد کے ہمہ وقتی محافظ اورنگراں تھے۔ مسجد چھوڑکر کہیں نہیں جاتے مسجد کے اردگرد ہروقت رہتے اورکوئی چیز خراب ہوتی یاضرورت ہوتی تو فوراً اپنا روپیہ لگاکر درست کراتے اورحساب کمیٹی کودیتے۔ ان کی امانت داری پرانتظامیہ کمیٹی کو اتنا اعتماد تھاکہ جوکہہ دیتے کبھی اس کی تصدیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
مسجد سے لگاؤ کا یہ عالم تھاکہ گھر نہیں جاتے کمیٹی کے لوگ کہتے کہ جائیے اورایک ہفتہ رہنا ہے اوردوتین بعدواپس آجاتے یہ بات مشہور ہوگئی کہ ان کو گھر دل ہی نہیں لگتا ہے۔
جو کام کرتے بڑئے خلوص سے کرتے ریا کاری سے سخت نفرت تھی۔ ان کے خلوص کایہ عالم تھاکہ خود تھوڑا تھوڑا جمع کرکے حج کا انتظام کیا پٹنہ کے کسی کو رنمبر کے ساتھ شامل نہیں ہوئے اورتنہاچھٹی لیکر گھرگئے اوروہاں سے گیا جاکر حج بیت اللہ کیلئے 2012 ء میں روانہ ہوگئے۔ واپسی میں گیا سے گھر چلے گئے اورکسی کو نہیں بتایا۔ اگرچاہتے تو اس کی مارکٹنگ کرکے بہت سا تعاون حاصل کرلیتے مگران کا کہنا تھاکہ میں صرف اللہ کے لئے حج کرنا چاہتاہوں۔
ان کے دل میں کبھی کوئی لالچ نہیں تھی بہت بڑا محلہ تھا اوربڑے قدرداں تھے مگراپنی ضرورت کیلئے کبھی دست سوال نہیں کیا، مزاج میں بہت وسعت تھی کسی سے کوئی امید نہیں لگاتے بلکہ ان کے احباب کی ایک ٹیم تھی جو عام لوگ تھے ان کے علاوہ چھوٹے بچوں اورغرباء سے خاص محبت تھی ۔ چائے کے شوقین تھے پیتے بھی اورپلاتے بھی اوربڑی عمدہ بناتے بھی تھے۔ اس کے علاوہ اورکوئی عادت نہیں تھی۔
عام طورسے جب باہر سے لوگ مسجد آتے توان سے پوچھتے کہ مؤذن صاحب آپ کو یہاں کتنی تنخواہ ملتی ہے توان کا جواب ہوتا کہ میں کسی مخلوق کے یہاں نہیں بلکہ اس خالق کے گھر میں رہتا ہوں جو سب کو پالتا ہے ہم اس مالک کی نوازش کوکیسے بتائیں کہ اس کی کیاکیا مہربانیاں ہیں۔ اسی مہربانی کا یہ ثمرہ ہے کہ مسجد انتظامیہ کمیٹی نے ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزدے کو ان کی جگہ بحال کردیا ہے یہ بالواسطہ اولاد صالح کے ذریعہ ان کے لئے صدقہ جاریہ ہے ، اس پر انتظامیہ کمیٹی کافیصلہ بھی قابل تحسین ہے۔وہ بڑے قناعت پسند تھے۔اوراکثر یہ کہتے کہ جوسوال کرتا ہے اس کے مال میں بے برکتی ہوجاتی ہے اس لئے کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگتے اورکبھی انہیں کسی چیز کی کمی بھی نہیں ہوتی، کئی ہوٹل مالکان ان کے لئے فری کیے تھے کہ جوکھالیں مگرکبھی اس کا غلط استعمال نہیں کیا بہت محتاط بقدرضرورت ہی قبول کرتے۔
امام مؤذن کی رقابت عام بات ہے مگر میرے ساتھ معاملہ بالکل جداگانہ تھا، ایک مؤذن نہیںبلکہ دوست اوربھائی کی طرح اس طرح نبھایاکہ لوگ دوردور تک ہم لوگوں کی مثال دیتے۔ میرے منشی بھی تھے،خزانچی بھی تھے اورپرائیویٹ سکریٹری بھی، میری بھلائی کی فکر کرتے ، میری خوشی سے خوش ہوتے، میرے کاموں کو سراہتے ، حوصلہ بڑھاتے، صحیح مشورہ دیتے اورمیرے غائبانہ میں میری ترجمانی کرتے ان کے تعاون سے ہی دیگر عوامی محرکات میں شامل رہا اورکبھی پریشان ہونے نہیں دیا، کہیں جانا ہوتا توکہتے کہ اطمینان سے جائیں ہم سب دیکھ لیں گے۔ اس دیکھ لینے میں مسجد کی ذمہ داری کے ساتھ میرے گھر کے افراد کی بھی جوضرورت ہوتی اس کے لئے بھی حاضررہتے۔
ان کو لوگوں کی پرکھ بھی بہت تھی، ایک نظر میں بتاتے کہ یہ دیندار لگتے ہیں، کسی کوکہتے کہ چالاک معلوم ہوتے ہیں، کسی کو کہتے کہ یہ حریص لگتے ہیں کسی کو کہتے کہ یہ درباری معلوم ہوتے ہیں، کسی کوکہتے کہ یہ باصلاحیت لگتے ہیں، کسی کوکہتے یہ مسخرہ لگتے ہیں۔کسی کوکہتے کہ یہ شریف لگتے ہیں ۔ پھر کسی کو میرا پتہ بتاتے، کسی کونمبر دیتے ، کسی سے بات کراتے اورکسی کو خوش اسلوبی سے ٹال دیتے۔ پھر اس کی خبردیتے، اس طرح کس کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا ہے اس کو بھی خوب جانتے تھے۔
ان کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی تھی کہ شکوے شکایت سے دور رہتے، عام طورسے دیکھا جاتا ہے کہ مؤذن کاسب ذمہ داروں کے پاس مختلف ضروریات کے تحت جانا ہوتا ہے اس لئے ایک دوسرے کی بات مرچ مسالہ لگاکر بیان کرکے خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگریہ جہاں سنتے وہی ختم کردیتے اگر کسی نے پوچھا توکہتے کہ آپ خود کیوں نہیں پوچھ لیتے میرا یہ کام نہیں ہے۔بلکہ جہاں دیکھاکہ دو آدمی بات کررہے ہیں تو فوراً وہاں سے ہٹ جاتے، اگرکسی نے غیبت کیا تو فوراً ٹوک دیتے کہ یہ سب ہمیں نہ سنائیے ہرآدمی کواپنا خیال رکھناچاہئے۔دوسروں کو چھوڑیں۔ عمل کی اپنی خوشبو ہوتی ہے ، کردار سے لوگ جانے جاتے ہیں ، مؤذن موصوف بھی اپنی کارکردگی کے باعث لوگوں میں مقبول تھے عام طور سے لوگ مؤذن کو کمتر سمجھتے ہیں مگران کو مؤذن ہونے کی حیثیت سے خوب عزت ملی ہر شخص ان کاخیال رکھتا، ۲۷؍ سال اس مسجد میں لگاتار رہے اورمسجد کی خدمت کرتے ہوئے اس دنیا کو خیرآباد کہا۔مسجد میں آخری سانس لی یہ ان کے لئے سعادت مندی اورعنداللہ مقبول ہونے کی علامت ہے اس بناپر یہ کہاجاسکتا ہے کہ شہنشاہ دوعالم ﷺ نے حدیث پاک میں جو مؤذن کی فضیلت بیان فرمائی ہے انشاء اللہ اس کے مستحق ہوںگے، حدیث پاک میں جوفضیلتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
٭ حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت ہے کہ حضوراکرم ؐ سے ارشاد فرمایاکہ مؤذن کی آواز جہاں تک جاتی ہے وہاں تک کی ہرچیز جن وانس کل قیامت کے دن اس کے ایمان کی گواہی دیں گے(بخاری)
٭ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایاکہ ’’ من اذن محتسباً سبع سنین کتب لہ براۃ من النار، یعنی جوشخص ثواب کی امید سے سات سال اذان دی تو اس کے لئے جہنم سے نجات لکھ دی جاتی ہے (ترمذی)
٭ عن ابن عمرؓ :ثلاثۃ علی کتبان المسک یوم القیامۃ عبد ادی حق اللہ وحق موالیہ ورجل ام قوماوھم بہ راضون ورجل ینادی بالصلوٰۃ الخمس فی کل یوم ولیلۃ (ترمذی)
ترجمہ: قیامت کے دن تین شخص مشک کے ٹیلوں پرآرام سے ہوں گے، ایک وہ غلام جو اللہ اورآقا دونوں کاحق اداکرے،دوسرے وہ امام جس سے قوم راضی ہو تیسرے وہ مؤذن جوپانچوں وقت کی اذان دے۔
٭ حدیث پاک میں ارشاد ہے: من اذن ثنتی عشرۃ سنۃ وجبت لہ الجنۃ وکتب لہ بتاذینہ فی کل یوم ستون حسنۃ ولکل اقامۃ ثلاثون حسنۃ( ابن ماجہ)
ترجمہ: جس نے بارہ سال اذان دی اس کے لئے جنت واجب ہوگئی اوراس کے لئے ہرروز کی اذان کے بدلے ساٹھ نیکیاں اورہراقامات پہ تیس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔
اسی لئے حدیث پاک میں کہاگیاہے کہ اگرلوگوں کوپہلی صف کی نماز اوراذان کی فضیلت معلوم ہوجائے توقرعہ اندازی کرنی پڑے گی۔ بہرحاہل، بارہ سال اذان دینے پرجنت کی بشارت دی گئی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ۲۷؍ سال اذان دینے کی توفیق دی اوریہ شرف بخشا جو ان کے لئے بڑی فضیلت کی چیز ہے اگرکوئی کمی رہی تو اسے اللہ تعالیٰ معاف فرمائے اورمذکورہ بشارتوں سے نواز دے یہی دعا ہے۔
ع :   خدابخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔

٭٭٭