Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, September 7, 2023

دانشوران ملت اسلامیہ سے گزارش*

علماء کرام سے گزارش ہے کہ نکاح کی تقریب میں صرف نکاح کو آسان بنانے پر حتی الامکان اپنی توجہ مرکوز فرمایئں

 *بقلم:پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم قاسمی*/صدائے وقت ،

===================================
اکتوبر ماہ سے شروع ہونے والے شادی بیاہ کے پروگراموں کے پیش نظر ممبر رسول، اجتماعات، مجالس سے وابستہ ذمہ داران سے دستبردہ گزارش ہے کہ وہ اپنے خطابات کے عنوانات کو منتخب اور محدود کرتے ہوئے چند ماہ کے لیے صرف نکاح کو آسان بتانے اور آسان بنانے پر حتی الامکان اپنی توجہ مرکوز فرمائیں،
واضح رہے کہ دنیائے انسانیت کا سب سے پہلا رشتہ اور بندھن میاں بیوی کا ہے،
بنی نوع انسانیت کی بقاء کی ضمانت اسی رشتہ ازدواج پر منحصر ہے،
حسب نسب کی پاکیزگی اور شرافت نسل،و نفس خاندانوں کی برتری حتی کہ نصف ایمان کی تکمیل اسی رشتہ ازدواج پر منحصر ہے، 
ظاہر ہے کہ جو رشتہ اس حد معتبر، مشروع، مسنون اور ضروری ہو تو اس کی انجام دہی اور دسترس بہر صورت سہل الوصول ہونی چاہیے، 
بصورت دیگر اگر اتنے اہم فریضہ تک پہنچنے اور انجام دینے میں رکاوٹیں، صعوبتیں، مشقتیں اور دشواریاں پیش آئیں گی تو پھر یقیناً اس کے برے نتائج اس حد تک رونما ہوں گے کہ ہمارے انفرادی دینی اعمال اور ہماری مذہبی شناخت اور دن رات کی شخصی اور اجتماعی عبادتوں کے باوجود معاشرے میں برائیاں بہرحال اپنا گھر کر چکی ہوں گی، 
ہم سبھی کو مل کر ان اعظم النکاح برکۃ ایسر مؤنۃ اور من تزوج فقداستکمل نصف الایمان کی اتنی تشریح اتنی تذکیر اور تشہیر کرنی چاہیے کہ کم از کم عوام کے ذہنوں میں بتدریج یہ بات گھر کر جائے کہ شادی بیاہ میں لوازمات اور اخراجات باعث فخر نہیں بلکہ باعث مشقت ہوا کرتے ہیں، 
نکاح ایک ایسا عظیم ترین فریضہ ہے کہ جس کے انجام دینے سے انسان ان تمام برائیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے جن برائیوں کی وجہ سے شرعی اور ملکی حدود جاری ہوا کرتی ہیں، 
شادی بیاہ کی عمومی دعوتوں میں شرکت، شادی بیاہ کے مقامات پر غیر ضروری سجاوٹ، اپنے مہمانوں کو لڑکی والوں کے گھروں پر لے جا کر خاطر و تواضع کرنے کی شرط لگانے اور غیر ضروری امیدیں وابستہ کرنے کو ذہنی طور پر غیر مناسب اور غیر اخلاقی بتانے اور سمجھنے کی عوامی طور پر تلقین و تشہیر کی جائے تاکہ سماج میں اس کو مجموعی طور پر معیوب و معتوب سمجھا جانے لگے، 
ویسے تو یہ ذمہ داری معاشرے اور سماج کے ہر ایک باشعور  افراد کی ہے البتہ حسبِ مراتب دینی و مذہبی پلیٹ فارم سے وابستہ پیشواؤں کی ذمہ داری کہیں زیادہ اس طور پر بڑھ جاتی ہے کہ وہ کہیں نہ کہیں ایسے منصب سے جڑے ہوتے ہیں جہاں سے عوام کی دینی و مذہبی بیداری آسان ہوا کرتی ہے اور اس دور میں آج بھی عوام  اپنے پیشواؤں کی بات بغور سماعت کرتی ہے، 
آج کل کچھ لوگ شادی بیاہ میں شرکت کو صلہ رحمی اور سماجی روا داری سے مربوط کرکے دیکھنے لگے ہیں، 
ایک رواج اور نظریہ یہ بھی ہے کچھ باشعور نکاح خواں کی حیثیت سے دور دراز سے بیجا اخراجات کر کچھ مذہبی پیشواؤں کو نکاح خوانی کے لیے یہ سمجھکر بلاتے ہیں کہ ان کے نکاح خوانی سے جہاں ایک طرف یہ محفل مقبول و مبرور اور مشہور ہو جائے گی وہیں دوسری طرف  زوجین کا رشتہ مقناطیسی دوام کا ضامن ہوگا، 
میرے اپنے محدود مطالعہ اور ریسرچ کے مطابق شرعی نقطہ نظر سے جو فریضہ اتنا اہم اور معاشرے کے ہر امیر و غریب بلا تفریق مسلک و مذہب انسانی ضرویات کی جائز تکمیل اور نصف ایمان کو مکمل کرنے کے لیے خالقِ کائنات نے بنایا ہو اسے اپنی ذہنی من گھڑت اختراعات سے جوڑنا اور اس تک عام دسترس کو مشکل ترین اور مشروط کر مادیت سے جوڑ دینا معاشرہ اور سماج کے ساتھ  نا انصافی ہے، 
شادی بیاہ کے پروگراموں کو مخصوص خاندانوں، مخصوص افراد، مخصوص علاقوں، مخصوص روایتوں، امیروں و غریبوں سے جوڑنے کے نظریات کو بہرحال مسترد کرنا ہوگا تبھی سماج اور معاشرے میں انصاف اور برائیوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا ، 
شادی بیاہ میں غیر ضروری، غیر شرعی، غیر معیاری لوازمات کی گنجائش، ماکولات و مشروبات اور انتظامات پر ستائش کو جب تک  امارت اور غربت کی بنیاد پر کیا جاتا رہے گا اس وقت تک اس رشتہ کو سہل الوصول بنانا اور ناخواندہ اور مفلس غیر منکوحہ خواتین کے ساتھ انصاف کرنا مشکل ترین اور اہم مسئلہ و ٹاسک ہوگا، 
جس معاشرے میں اتنے اہم فریضہ کی ادائیگی کے لیے بوڑھے سفید پوش باریش  خم رسیدہ بزرگ والدین مساجد میں نمازوں کے بعد رومال اور ہاتھ پھیلا کر اپنی لڑکیوں کے نکاح کے لئے بھیک مانگتے ہوں تو کیا ایسی صورتحال میں شریعت کے اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے شادی بیاہ کے تعلق سے لوازمات پر متفقہ  حرمت کا فتویٰ نہیں دے دینا چاہیے کہ جس مبینہ اصول کے تحت یہ کہا گیا ہے کہ اگر کنھیں مباح اور جائز کاموں کے کرنے سے انسانی حقوق کی پامالی، بد اخلاقی، معاشرے میں فساد، جانیں تلف ہونے لگیں تو ایسی صورتحال میں اس مباح اور جائز کام کے حرمت کا باالاتفاق عارضی فتویٰ جاری کر دینا چاہیے جب تک اصلاح ممکن نہ ہو، 
کچھ مسلم دانشوران کا ایسا ماننا ہے کہ دور حاضر میں مسلم خواتین میں بڑھتے ارتداد کی ایک اہم وجہ کہیں نہ کہیں مفلس والدین کی کسمپرسی اور رشتوں میں غیر ضروری و غیر شرعی کنڈیشن و شرطوں کی وجہ سے سماج میں دشواریوں کا سامنا ہے، 
 *قارئین:* میرے اپنے ذاتی خیال کے مطابق شادی بیاہ کی تقریبات کو اس طور پر انفرادی عمل نہ سمجھا جائے کہ شادی بیاہ کی تقریبات میں مالداروں اور امیروں کو خوب خرچ کرنے پر داد و تحسین دیتے ہوئے اچھا سمجھا جائے اور غریبوں و نا داروں کو چندہ کرنے کرنے ہر مجبور ہونے دیا جائے، 
شادی بیاہ کی تقریبات کا سیدھا تعلق اجتماعی طور پر معاشرے اور سماج سے ہے، 
لھذا ان تقریبات کی اچھائی اور برائی کا سیدھا تاثر انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہے، 
 *مورخہ 7 ستمبر بروز جمعرات 2023* 
 *رابطہ 9307219807* 
 *abdulhaleemeumc@gmail.com*