Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, March 16, 2024

رمضان المُبارک ہمدردی وخیر خواہی کا مہینہ..



از \ مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی
چیرمین انڈین کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ ٹرسٹ بنگلور ، کرناٹک وجامعہ فاطمہ للبنات مظفرپور ، بہار
                           صدائے وقت
اس سال کے رمضان المبارک کا آغازہمارے ملک میں بھیانک معاشی ماحول میں ہورہا ہے۔ ملک بدترین معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ جس کے نتیجے میں مہنگائی کا سیلاب بلا خیز ہے کہ دن بدن بڑھتا ہی چلاجارہا ہے۔ ہرچیز چاہے وہ کھانے پینے کی اشیاء ہوں یا پہننے کے کپڑے ، روزمرہ استعمال کی دیگر چیزیں ہوں، بجلی ، گیس ، پیٹرول ہو یا ادویات، ہر چیز عام آدمی کی پہنچ اورقوت خرید سے باہر ہے، قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔غربت اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ ملک کی کثیر آبادی اس وقت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ عام آدمی کی جو حالت ہے وہ ہم سب جانتے ہیں۔ اس ساری صورتِ حال میں سب سے زیادہ مشکل سفید پوش طبقے کی ہے۔ جو’’پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘ کی کیفیت سے دوچار ہے ۔ معاشرے کی یہ معاشی حالت صرف ’’جگ بیتی ہی نہیں بلکہ ’’آپ بیتی‘‘ جیسی ہے۔ غرض یہ کہ معاشرے کا ہر طبقہ اس معاشی بدحالی سے دو چاراوربدحال ہے۔اس بدترین معاشی ماحول اور انتہا کو پہنچی ہوئی مہنگائی کے عالم میں رمضان المبارک 1445ھ کا آغاز ہوچکاہے ۔ 
خدشہ اس بات کا ہے کہ شاید اس معاشی بدحالی کے عالم میں غریبوں کو سحروافطار کے وسائل بھی میسر نہ ہوں۔ لاکھو ں نہیں تو ہزاروں روزے دار ایسے ہوں گے جو پانی سے روزہ رکھنے اور پانی ہی سے افطار کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ہرچند کے رمضان جہاں روحانی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں ، مغفرتوں اور سعادتوں کا حامل ہے۔وہاں مادی اعتبار سے بھی بڑی برکتوں کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق جس طرح بندوں کے اعمال اورنیکیوں کے اجر و ثواب کوسترگنابڑھادیاجاتا ہے ،اسی طرح اللہ اپنے روزے دار بندوں کے رزق میں بھی برکت اوردسترخوان پروسعت عطا فرماتا ہے۔ اس تمام معاشی اورروحانی پس منظر میں رمضان المبارک کی سماجی و معاشرتی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک کے دیگر کئی صفاتی نام احادیث و روایات میں آئے ہیں۔ مثلاً شہر الصبر ِ صبرکا مہینہ ، شہر الصوم روزہ کا مہینہ ، سید الشہور مہینوں کا سردار ، شہر اللہ، اللہ کا مہینہ ، شہر العظیم عظمت والا مہینہ، شہر المبارک برکت کا مہینہ، وہیں اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے رمضان المبارک کو’’ شہر المواسات‘‘ ہمدردی و غم خواری اور ایثار و قربانی کا مہینہ بھی فرمایا اور اس میں کسی روزے دار کو روزہ افطار کرانے پر اُس روزے دار کے برابر اجر کی نوید بھی سنائی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رمضان ہمدردی وغم خواری کا مہینہ ہے۔یہ وہ مہینہ ہے جس میں ایمان والوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے، جس نے کسی روزے دار کو افطارکرایاتو یہ اس کے لئے گناہوں کی مغفرت اور جہنم کی آگ سے آزادی کا سبب ہوگا اور اسے اس روزے دار کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ اس روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔آپ صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا گیا : یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہم میں سے ہر ایک کو سامانِ (افطار) میسر نہیں ہوتا کہ جس سے وہ روزے دار کو افطار کراسکے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ اللہ یہ ثواب اس شخص کوبھی عطا فرمائے گا۔ جو دودھ کی تھوڑی سی لسی یا کجھور یاپانی کے ایک گھونٹ پر ہی کسی روزے دار کو افطار کرادے اور جو کوئی کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلادے ،اللہ اسے میرے حوض (کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا، پھر اسے پیاس ہی نہیں لگے گی،یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔ (بیہقی شعب الایمان)
 اس حدیث میں رمضان المبارک کے لئے ’’مواسات‘‘کا لفظ استعمال ہواہے۔ ’’مواسات‘‘ کے معنی ہیں۔ غم گساری، جان و مال سے کسی کی مدد کرنا، ایثار کا مظاہرہ کرنا۔ اپنے بھائی کی غم خواری کرنا۔ اسی لئے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس مہینے میں مومن بھائیوں کی مدد کرنے ، ان کا بوجھ ہلکا کرنے اور ان سے غم گساری سے متعلق اتنی ہدایات و ترغیبات دیں کہ جن کی کوئی حد نہیں۔ اللہ کے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مزید ارشادفرمایا کہ جو اس مہینے میں اپنے خادم و ملازم کے کام میں کمی کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے گا‘‘ ۔
معلوم ہوا کہ اب یہ ہمدردی خواہ مالی ہو یاغذا ، راشن وغیرہ فراہم کرکے ہو یا پھر ایک ملازم سے اس کے ملازمتی امور کے بوجھ کو کم کر کے یا ختم کر کے ہو یا لباس دےکر ہو، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یوں تو اپنی ذات میں جود وسخا کا دریا تھے ہی ، لیکن رمضان میں آپ کا جو دوسخا غیر معمولی طور پر بارش کی طرح برستا اورہر کوئی اس جود وسخا کی بارش سے سیراب ہوتا تھا۔ رمضان میں آپ سے جو کوئی جو کچھ مانگتا، آپ انکارنہیں فرماتے تھے۔ احادیث میں ترغیب دلائی گئی ہے کہ اس ماہ مبارک کو مسلمانوں کے ساتھ مواسات میں گزاریں ۔ کسی غریب کو روزہ افطار کرانا اور اچھی غذا سے پورا ضیافت کرنا بڑی نیکی ہی نہیں، بلکہ غربا پروری اور غم گساری کی اعلیٰ مثال بھی ہے۔پھر یہ کہ روزے کی حالت میں بھوک پیاس پر صبر سے بھوک پیاس اور روٹی سے محروم انسانوں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے اور اخوت و غم گساری کا شوق اور جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ کپڑا نا ہونے پر صبر آجاتا ہے، لیکن روٹی نا ملنے پر صبر نہیں آتا۔ جب انسان کو جائز طریقے سے روٹی نہیں ملتی تو وہ ناجائز طریقوں پر اتر آتا ہے اور مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق وہ حیوانیت کا راستہ اختیار کر لیتا ہے ۔ اس کے بعد ہوتا یہ ہے کہ معاشرے میں انسانوں کی شکل میں شیطانوں کی جماعت نظر آتی ہے۔ جیسا کہ آج ہمارے معاشرے کی کیفیت ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کی خبر گیری رکھیئے جن کو رمضان میں بھی روزہ افطار کرنے کو ایک کھجور بھی نصیب نہیں ہوتی، تاکہ وہ انسانیت کا جامہ چاک کر کے حیوانیت کے راستے پر نہ چلیں۔اس تمام گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ ہمارےملک کے موجودہ بدترین معاشی حالات میں رمضان کے سماجی پہلو اور مواسات کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس مہینے میں غریبوں ، مسکینوں اور حاجت مندوں کو تلاش کر کے ان کی کفالت کا انتظام کریں، تاکہ اُن کے چہروں کی اداسی اور احساس محرومی کو دور کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں اس رمضان میں خصوصی طور پر اپنے پاس پڑوس ، رشتے داروں اور دوست احباب کی خبر لیں۔ اُن میں جو مستحق زکوٰۃ ہو، اسے باعزت طریقے سے زکوٰۃ دیں۔عام طور پر باوقار اور شریف لوگ اپنی سفید پوشی کی خاطر خود نہیں مانگتے ،حالاں کہ وہ سب سے زیادہ ضرورت مند ہوتے ہیں۔ انہیں ہم اس لئے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ وہ ہمارے دروازے پر مانگنے نہیں آتے ،ہمارا یہ رویہ کسی طرح درست نہیں، بلکہ خود اُن کے دروازے پر جاکر انہیں رازداری سے اللہ کی دی ہوئی دولت میں سے ان کا حق اور حصہ دیں ،اس کے لئے ضروری نہیں کہ زکوٰۃ ہی کی رقم سے مدد کی جائے۔ہر کسی پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی ،بلکہ ہم عمومی ذرائع آمدنی سے بھی یہ مواسات قائم کر سکتے ہیں۔
 پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ مومن کی صفت قرآن نے یہ بیان کی ہے کہ وہ اپنی ضرورت روک کر اپنے بھائی کی ضرورت پوری کر دیتا ہے۔ قرآن کریم میں دو جگہ "سورۂ حشر "اور "سورۂ تغابن" میں یہ بات بیان کی گئی ہے۔ کہ’’ مومنین کی صفت یہ ہے کہ وہ خودتنگی میں کیوں نہ ہوں دوسروں کی ضروریات کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں۔‘‘ اسلام کی تعلیمِ فلاحِ انسانیت یہی ہے کہ معاشرے کا ہر فرد دوسروں کی نشوونما اور ان کی ضرریات کی تکمیل کو اپنی ضروریات پر ترجیح دے۔لہٰذا غم گساری کے اس مہینے میں صدقہ، خیرات، مساکین کو کھانا کھلانے ، یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنے، بیواؤں کی حاجت روائی کرنے، ننگے بدن کو کپڑا پہنانے اور بیماروں کی دوا کی فکر کرنا اپنا مشغلہ بنالیں اور دوسروں کے غموں کو خوشیوں میں بدلنے کا ذریعہ بن جائیں۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص اپنے بھائی کی ضروریات کے لئے ایک قدم اٹھائے اور اس کے لئے آسانی کی کوشش کرے تو اس کی یہ کوشش دس سال کے اعتکاف سے بہتر اور افضل ہے۔ (بیہقی) غور کیجئے رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف کی عبادت سے عبارت ہے ،اب اگر کسی کو مسجد میں دس دن کے اعتکاف کی سعادت حاصل نہ ہو سکے ،لیکن وہ اپنے مومن بھائی کے روزے دار منہ میں ایک کجھور کا دانہ ہی ڈالنے کی کوشش کرے تو یہ کوشش اسے دس سال کے اعتکاف کی سعادت سے بہرہ ور کرتی ہے۔دوستو! اس وقت ملک کے معاشی حالات بہت سنگین ہیں اور غریب جیتے جی مرگیا ہے، لہٰذا اس رمضان مخلوق کا غم کھانے کی تربیت حاصل کر لیں تو سارا سال اس پر عمل آسان ہوجائے گا۔ 
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے جو مرتبہ بھی ملا ہے ،وہ محض عبادت سے نہیں ملا ،بلکہ خدمت خلق اور مواسات و غم گساری سے ملاہے‘‘۔ اللہ کی ذات سے کیا بعید ہے کہ ہمارے ہاتھ سے افطار اور سحری کے وقت کسی ضرورت مند روزے دار کے منہ چند لقمہ خوراک کے چلے جائیں تو ہمارا یہ عمل آخرت میں ہماری مغفرت کا ذریعہ بن جائے، لیکن اس مواسات اور غم گساری میں ہمیں اس بات کا بھی بہت خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری امداد اور تعاون حقیقی مستحق افراد تک پہنچے ۔