Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, July 21, 2018

پاکستان میں اس وقت عمران خان کا بول بالا، کوئی بتا رہا کنگ تو کوئی کنگ میکر

پاکستان میں چار دن بعد وفاقی اور ریاستی انتخابات ہونے ہیں۔ اس بار انتخابات میں سابق کرکٹر اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کا نام سب سے زیادہ چرچا میں ہے۔ پاکستان کی عالمی چیمپئین کرکٹ ٹیم کے کپتان رہ چکے عمران خان کی پوزیشن اس بار کے عام انتخابات میں سب سے مضبوط سمجھی جا رہی ہے۔ تاہم، اس پوزیشن تک پہنچنے میں انہیں 22 سال لگ گئے۔ حالانکہ انتخابی جیت کے لئے وہ اپنی تشہیری مہم میں جس طرح سے نامناسب زبان کا استعمال کر رہے ہیں اس سے ان کے ’ فئیر گیم‘ کو لے کر بھی سوال کھڑے ہو رہے ہیں۔

عمران خان 1996 میں پہلی بار سیاست میں اترے تھے۔ اس کے ایک سال بعد ہوئے عام انتخابات میں ان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کوئی بھی نشست نہیں جیت سکی تھی۔ 2002 کے انتخابات میں بھی ان کی پارٹی کی حالت پتلی ہی رہی۔ عمران صرف اپنی ہی نشست جیت سکے تھے۔ کوئی بہتر حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے 2008 کے انتخابات میں نہ اترنے کا فیصلہ کیا۔





اس کے بعد عمران نے 2013 کے انتخابات کے لئے ایک حکمت عملی کے تحت کام کیا۔ انہوں نے اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) حکومت کے خلاف بدعنوانی کا معاملہ پر زور طریقہ سے اٹھایا۔ یہی نہیں، عمران خان نے افغانستان-پاکستان کے سرحدی علاقے میں ڈرون حملوں کی مخالفت بھی کی جس کے بعد وہ سیاسی گلیاروں میں اور چرچا میں آ گئے۔ اب عمران 2018 کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

عمران نے ایک عوامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "یہ پاکستان میں تبدیلی لانے کا ایک اچھا موقع ہے۔ یہ ایسا موقع ہے جو آپ کو بار بار نہیں ملے گا۔ 8000 افراد کو خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان میں کن چیزوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور کیوں؟

عمران کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 2013 کے عام انتخابات میں ووٹ فیصد کے لحاظ سے دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ پاکستان کے خیبر پختونخوا صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت بھی بنی۔ لیکن، عمران اس کارکردگی سے خوش نہیں تھے، کیونکہ انہیں اس الیکشن میں اقتدار تک پہنچنے کی پوری امید تھی۔ سیاست میں عمران خان کی قسمت تب چمکی جب پاکستان نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو کسی بھی طرح کے عوامی عہدے کے لئے نااہل قرار دے دیا۔

دراصل، عمران خان نے 2013 ء میں وزیر اعظم بنے نواز شریف کے کنبہ کا نام  'پنامہ پیپرز‘ میں سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف ایک ملک گیر تحریک شروع کر دی تھی۔ نواز شريف کے خلاف انہوں نے سڑک سے لے کر عدالت تک لڑائی لڑی۔ 2017 میں اسی معاملہ کے مدنظر نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا، جس کے بعد نواز نے استعفی دے دیا۔ اس کے بعد عمران خان کا سیاسی کیریر اصل دھارے میں آنے لگا۔ نواز شریف کو بدعنوانی کے معاملہ میں 10 سال کی سزا سنائی گئی ہے۔

عمران خان کو نوازشریف کے خلاف بدعنوانی کی جنگ لڑنے کا بہت بڑا فائدہ ملا ہے۔ پاکستان کی خواتین اور نوجوانوں کا ایک بڑا حصہ اب ان کے ساتھ جڑ چکا ہے۔ عمران خان کے لئے اس الیکشن میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ اگر ان کی ذاتی زندگی کو چھوڑ دیں تو ان کی سیاسی اور عوامی زندگی پر کوئی داغ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں وہ اپنے مخالفین سے کچھ الگ کھڑے ہوتے ہیں۔

عام انتخابات سے پہلے کئے جانے والے زیادہ تر سروے میں عمران خان سب سے آگے بتائے جا رہے ہیں۔  تاہم، ان سروے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی پارٹی اکیلے حکومت نہیں بنا سکے گی۔ ایسے میں واضح ہے کہ گرچہ عمران کی پارٹی اکیلے حکومت نہ بنا پائے لیکن سرکار بنانے کی دوڑ میں وہ ضرور شامل ہے۔