Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, August 9, 2018

بیروزگار نوجوان کی تشویش۔

از ڈاکٹر شرف الدین اعظمی ۔صدایے وقت کے لیئے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
بھارت کا تعلیم یافتہ نوجوان زبردست بے روز گاری کا شکار ہے۔پورے ملک کے تعلیم یافتہ نوجوان و زیر تعلیم نوجوان اپنے مستقبل کو لے کر حالت تشویش میں ہیں۔اس سلسلے میں ملک کے اکثر تعلیمی اداروں میں سیمینار و سمپوزیم کا انعقاد کر کے طلباء اپنے کیریر کو لیکر پریشانی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اسی سلسلے میں صوبہ جھار کھنڈ کی رانچی یونیورسٹی میں ایک پروگرام کا انعقاد ہوا۔رانچی یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی فلاسفی کی طالبہ و سوشل ایکٹیوسٹ مسز جہاں آرا نے اس پروگرام کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کا تعلیم یافتہ نوجوان سماج کے پسماندہ طبقے کی فہرست میں آگیا ہے۔چاہے اس کے پاس کتنی ہی ڈگریاں ،قابلیت اور ٹیلنٹیڈ کیوں نہ ہو اس کو اپنے مستقبل کی فکر پریشان کئیے ہوئے ہے۔میں اس کے لئے سرکار کو جواب دہ مانتی ہوں۔ملک میں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد ہر سال دوگنی ہو جا رہی ہے دوسری طرف سرکار نوکریوں کے مواقع کم کرتی جارہی ہے۔آج نوجوانوں کو نوکری نہیں مل رہی ہے۔لوک سیوا آیوگ امتحان تو لیتا ہے مگر ری زلٹ نہیں۔مقابلہ جاتی امتحانات میں پاس ہونے کے باوجود بھی اپوائنٹ منٹ لیٹر جاری نہیں کیا جاتا ہے۔کالج میں پروفیسر کی کمی ہے بھرتی نہیں کی جارہی ہے کلاس ٹھپ سی ہو گئی ہیں۔امتحانات مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔
مسز جہاں آرا نے آگے کہا کہ اگر ہم پرائیویٹ کمپنیوں کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو وہاں نوجوان امپلائی کا استحصال ہی استحصال ہے۔انھوں نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ بینک میں پی او کی خالی آسامیاں 2013 میں تیس ہزار تھیں جو 2014 میں گھٹ کر پچیس ہزار ہو گیئں۔2015 میں اٹھارہ ہزار۔2016 میں آٹھ ہزار اور 2017 میں صرف تین ہزار رہ گئیں ۔اس لحاظ سے اگر صوبائی تقسیم کا حساب لگایا جائے تو ہر ایک صوبے میں صرف 115--20 لوگوں کو ہی لیا جا سکتاہے۔انھوں نے کہا کہ صرف صوبہ جھار کھنڈ میں ہر سال تقریباّ تیس لاکھ بے روزگار نوجوان تیار ہو رہے ہیں۔سرکار ان نوجوانوں کو کہاں ایڈجسٹ کریگی۔
اس سال ہورے ملک سے تقریباّ نو لاکھ لوگوں نے پی او کا فارم بھرا ہے۔ایک فارم کی قیمت 600 روپیہ ہے اس طرح سے سرکار نے ان بے روزگار لوگوں سے 54 کروڑ روپیہ وصولتی ہے اور بدلے میں ٹھینگا دیکھاتی ہے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ اداروں کی حالت خستہ ہے۔بھارت کے 6 ایمس اسپتال میں پڑھانے والے ڈاکٹروں کی کمی ہے۔80 فیصد سپورٹنگ اسٹاف کی کمی ہے۔ملک میں اب کس طرح کے ڈاکٹر پیدا ہو رہے ہیں اور کیسا علاج ہو رہا ہے یہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔مگر برسر اقتدار لوگ اس پر بات بھی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
انھوں نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ اس طرح کا پرگرام چلتے رہنا چاہیئے تاکہ ہم حکومت کو آئینہ دیکھاتے رہیں۔