Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, August 9, 2018

مقصد بیعت۔

*بیعت کا مقصد "اصلاحِ نفس "ہے، یا "حصولِ خلافت؟۔
. . . . . . . . . . . . .  . . . . . . . . . . . . 

🖋 فضیل احمد ناصری کی تحریر. .  . .  
. . . . . . . .  . . . . . . . . . . . .  . . .  

بیعت کا لفظ "بیع "سے نکلا ہے، جس کا معنیٰ ہے "فروخت کردینا "۔ شے کو اپنی ملکیت سے نکال دینا۔ بیعت میں بھی یہ معنیٰ ملحوظ ہے ۔ ایک شخص کسی دوسرے کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتا ہے تو ہاتھ دینے والے کو مرید اور ہاتھ تھامنے والے کو "شیخ "کہتے ہیں۔ جب کہ جانبین کا یہ عمل "بیعت "کہلاتا ہے۔ یہ اصلاحِ نفس کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ بیعت کی کئی قسمیں اہلِ علم کے یہاں منقول ہیں، مثلاً: بیعتِ جہاد اور بیعتِ اصلاحِ نفس وغیرہ۔ بیعت کا ثبوت قرآن و حدیث سب سے ہے۔ الحمدللہ بیعت کا سلسلہ نقلاً بعد نقل ہم تک پہونچ چکا ہے۔ آج کل جو بھی بیعتیں ہو رہی ہیں ان کا عنوان "اصلاحِ قلب "اور تزکیۂ نفس ہے- یہ عمل بے حد مبارک، مسعود، قابلِ رشک اور روح پرور ہے۔ جو لوگ اس سلسلے سے وابستہ ہیں، بڑے مبارک ہیں۔ بڑے بڑے اولیاءاللہ اسی راستے سے "معرفت یاب "ہوے۔ لاکھوں، کروڑوں کی اصلاح ہوئی۔لوگوں کے مردہ دل زندہ ہوگئے۔ جن کے معاملات اور اخلاق درست نہ تھے، ان کی زندگی "حیاتِ طیبہ "میں تبدیل ہوگئی۔ عبادات میں کورے اس مبارک سلسلے سے جڑتے ہی زاہدِ پاکباز بن گئے۔ غرض یہ کہ بیعت و ارشاد سے وابستگی نے عظیم الشان اور تاریخی انقلاب برپا کیا، مگر: ہر کمالے را زوالے۔ ہر عمل کی طرح اس میں بھی فتور پیدا ہو گیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اب اس میں بھی کوتاہیاں راہ پا چکی ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ "بیعت وارادت "ایک بزنس بن گئی ہے۔ لوگ خانقاہوں کا رخ "اصلاح نفس "کے بجاے "حصولِ خلافت "کے لیے کر رہے ہیں، چناں چہ ایک شخص آج بیعت کرتا ہے اور چند دنوں کے بعد خلافت اینٹھ لاتا ہے۔اور پھر بقلمِ خود اپنے نام کے ساتھ *خلیفہ و مجاز* لکھنا فرض و واجب سمجھتے ہیں۔ میں ایسے درجنوں پیروں کو جانتا ہوں جن کے روز و شب گناہوں سے آلودہ ہیں، مگر وہ ہیں خلیفہ و مجاز۔ اور دھڑلے سے مجلسِ بیعت بھی برپا کر رہے ہیں۔جب وہ خود ایسے ہوں تو دوسروں کی اصلاح کیوں کر ممکن ہے؟ چناں چہ عام مشاھدہ ہے کہ ایسے پیروں کے خلفا ہر اس عیب میں پختہ ہوتے ہیں، جن سے پاک رہنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ خلفا کی حرکات و سکنات کو دیکھ کر پیرمغاں کے "جغرافیے "کا اندازہ لگانا کچھ بھی مشکل نہیں.....تعرف الشجرۃ باثمارھا....ایسے خلفا کو دیکھ کر بعضے تو یہ تبصرے بھی کر جاتے ہیں کہ میاں! یہ خلافت لے کر آیا ہے، یا کھلی آفت؟ ایسے خلفا کی افزائش نے خانقاہوں کے تابناک کردار کو دھندلا کر دیا ہے۔ الحمدللہ ملک میں اچھے مرشدوں کی اب بھی کوئی کمی نہیں، مگر وہ گوشۂ گمنامی کو ترجیح دینے کی بناپر منظرنامے سے اوجھل ہیں۔ بہار میں "حضرت الحاج مولانا حافظ شمس الھدیٰ صاحب دامت برکاتہم "بڑے اچھے مرشد ہیں۔ ان کے یہاں خلافت بس براے نام ہے۔ میرے بڑے بہنوئی سہیل احمد ناصری صاحب کم و بیش تیس برسوں سے مرید ہیں ۔بے حد متدین۔ کمالِ اخلاق ۔ معیاری مسلمان، مگر انہیں ہنوز خلافت نہ مل سکی۔ وہی کیا، ان کے دو تین ساتھی کے سوا کوئی بھی اسے حاصل نہ کر سکا۔ وہ اپنے مریدین کو خوب رگڑتے ہیں۔ نفس کشی اور تزکیے پر ہمہ تن زور ہے۔ اگر وہ دکان دار پیر ہوتے تو ان کے خلفا کی لائن لگی ہوتی، جیساکہ عام پیروں کا دیکھا جا رہا ہے۔ بعض لوگوں کے بارے میں میں نے سنا کہ وہ بیعت کرتے ہی "خلافت " بھی تھما دیتے ہیں۔ بیعت و ارشاد کو عجیب مضحکہ خیز بنا رکھا ہے۔ بعض لوگوں کو دیکھا کہ اپنے اسفار کے دوران جس پیر کو "علاقے "کا مشہور و مقبول پاتے ہیں، ان سے بیعت کرکے اور دو چار فرضی منامات سنا کر، نیز شیخ کو بھاری لفافہ تھماکر خلافت کھینچ لاتے ہیں، چناں چہ ایک ہی شخص بیک وقت کئی کئی شیوخ کا خلیفہ ہوتا ہے۔ میں ایسے کئی امبانی العلما و اڈانی العلما کو جانتا ہوں، جنہوں نے پیری مریدی کو ایک کھلونا بنا کر رکھ دیا ہے۔ حضرت تھانوی اپنے کسی خلیفہ میں کوئی جھول پاتے تو فوراً خلافت چھین لیتے۔ماضی قریب میں معروف عالم مولانا الیاس گھمن کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ حضرت مولانا شاہ حکیم اختر صاحب نے ان کی تصویر کشی کی وجہ سے خلافت چھین لی تھی.....آہ! اب ایسے شیوخ بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتے اور جو ملتے ہیں وہ بھی ان رذائل میں بری طرح ملوث ہیں، جن کی قباحت و شناعت سے قرآن و سنت مملو ہے.....