Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 14, 2018

یوم آزادی و خود احتسابی۔

    نہیں منت کشِ تابِ شنیدن داستاں میری۔

     از    شمشیرحیدر قاسمی ۔

 آزادی بہت ہی پیارا اور خوبصورت لفظ ہے ،قدرت نے اس لفظ میں ایک خاص قسم کی جاذبیت رکھ دی ہے ۔جسے سن کر پورےجسم میں کیف و نشاط کی رو دوڑ جاتی ہے، اس لفظ سے قلب کو غیرمعمولی فرحت اور روح کو بے انتہاء  تسکین فراہم ہوتی ہے ،اس لفظ میں شوق وولولہ کو مہمیز لگانے کی بھرپور صلاحیت ہے،غفلت اور لاپرواہی کے خوگر افراد بھی اس لفظ کو سن کر جنون و دیوانگی کے عالم میں اٹھ کھڑا ہوتا ہے، اور بے تحاشہ اس کے پیچھے دوڑنے لگتا ہے،  اور اس کی راہ میں حائل بڑی سے بڑی طاقتوں سے مقابلے کے لئے خود کو آمادہ کرلیتا ہے ۔ اسے یہ فکر بھی نہیں ہوتی کہ اس کا انجام کیا ہوگا ۔کن کن پر خاروایوں سے گزرنا پڑے گا، مصائب وآلام کے کیسے کیسےہولناک پہاڑیوں کو سرکرنا ہوگا ،روح کو لرزادینے والی کال کوٹھریوں ،جسم کے ایک ایک انگ کو تڑپادینے والی سزاؤں کو خوشی خوشی جھیلنا ہوگا،
عین ممکن ہے کہ جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑے، اس لئے کہ اس راہ میں قدم قدم پر سولیاں اور بیڑیاں  گردنوں اور پیروں کو کسنے کی تاک میں ہیں، پورے بشاشت کے ساتھ اس راہ سے گزرنا ہے ۔سولیاں اگر گردونوں کی طرف لپکتی ہیں،بیڑیاں اگر پاؤں کی جانب جھپکتی ہیں تو بلا تامل گردوں کو سولیوں اور پیروں کو بیڑیوں کے  سپردکردینا ہے ۔
اسی پر بس نہیں توپوں اور ٹینکوں کے دہانے بھی اس راہ میں قدم قدم پر جسم کے لوتھڑوں سے دل بہلانے کے مشتاق ہیں ۔انھیں بھی شاد کرنے کے لئے بے دریغ  خود کو سونپ دینا ہوگا ۔
یعنی کہ ۔
مقتل کی طرف اب جاتے ہیں اے موت تیرے لب چوم کے ہم
لے جام شہادت پیتے ہیں ساقی کے ادا پہ جھوم کے ہم
ہم شمع یقیں کے پروانے شعلوں سے محبت کرتے ہیں
اے زیست ہماری راہ سے ہٹ ہم موت کی عزت کرتے ہیں۔
دراصل غلامیت کے لبادے کو تار تار کرنا ،افکار و خیالات  پر جمے غلامیت کی حقیر ترین کائی کو صیقل کرنا،اور ذہن و دماغ سےحکمراں طبقے کی مرعوبیت کے بوجھ کو ختم کرنا ایک شریف الطبع قوم کی نگاہ میں ایسا مہتم بالشان عمل ہے جس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔

ناموسِ جان و دل کی بازی لگی تھی ورنہ
آساں نہ تھی کچھ ایسی راہِ وفا شعاراں۔

ہمارا پیارا وطن بھارت جو صدیوں سے گنگاجمنی تہذیب کے لئے مشہور چلا آرہا تھا، بلاتفریق مذہب وملت یہاں کے باشندے ایک دوسرے کے ساتھ اخوت و محبت کا بہت دلکش نمونہ سمجھے جاتے تھے، ایک دوسرے کے ساتھ یگانگت ، ہمدردی و غمگساری باشندگان ہند کا خاص طرہ امتیاز تھا ۔انھیں خصوصیات نے اسے سونے کا چڑیا بنادیا تھا،
مگر بدقسمتی سے  سات سمندر پار سے سامراجیوں کاایک قافلہ بغرض تجارت وارد ہوا، اور  مغل حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ یہاں کے سیاہ و سفید کا مالک ہو بیٹھا پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ سلطنت مغلیہ کا آخری فرمانروا بہادر شاہ ظفر کو قید کرکے پابجولاں رنگون بھیج دیا گیا ۔ان کے شہزادوں کو قتل کردیا گیا ۔لال قلعہ پر برطانوی یونین جیک لہرا دیا گیا،ملک کے طول عرض میں برطانوی فرمانروا ملکہ وکٹوریہ کا قانون نافذکردیاگیا
اور ہمارا پیارا بھارت انگریزوں کی غلامیت کا حصہ بن کر کراہنے لگا ،یہاں کے جملہ باشندگان اس غلامیت سے بری طرح کانپنے لگے ۔باشندگان بھارت کو اپنے تشخصات کا خون ہوتا دیکھا نہیں گیا ۔وہ انگریزی حکومت کی بغاوت پر آمادہ ہوگئے اور انگریزی حکومت کے جبر و استبداد سے ملک کو آزاد کرانے کے لئے میدان میں گود پڑے، پھر کیا تھا ۔اس راہ کے مسافروں کو جن صبر آزما اور خونچکاں احوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ان مجاہدین آزادی کو بھی ان تمام احوال و مسائل سے گزرنا پڑا ،لیکن آزادی ہند کی تاریخ بتاتی ہے کہ قلب و جگر کو پاش پاش کردینے والے ان مظالم نے مجاہدین کے جذبہ حریت کو تھوڑی دیر کے لئے بھی سرد نہیں کرپایا بلکہ ان کے جذبے جواں اور مضبوط و مستحکم ہوتے چلے گئے۔
  مجاہدین آزادی کے درج ذیل ملفوظات سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے  ۔

 آزادی کی ایک دن کی زندگی غلامی کی سوسالہ زندگی سے بہترہے۔   (ٹیپو سلطان )

مجھے آزادی کا پروانہ دو یا کسی آزاد ملک میں مرنے کے لئے دوگز زمین فراہم کردو ۔میں غلام ملک میں واپس جانانہیں چاہتا ۔(مولانا محمد علی جوہر )

 مجاہدین آزادی کو ان کے عزائم سے برگشتہ کرنے کے لئے جب انگریزی فوج کو رائفل کے ساتھ گھومتے دیکھا تو جذبہ حریت کا بطل جلیل اپنا سینہ اس طرف کرکے پکار اٹھا ۔
       لئے پھرتی ہے بلبل چونچ میں گل ۔
        شہید ناز کی تربت کہاں ہے  ۔
    (مولانا حسین احمد مدنی ) ۔
 
انگریز جج کو مخاطب کرکے ۔
۔زیادہ سے زیادہ جو سزا دی جاسکتی ہے ۔بلا تامل دےدو ،میں یقین دلاتا ہوں کہ سزا کا حکم لکھتے ہوئے جس قدر جنبش تمہارے دل میں پیدا ہوگی اس کا عشر عشیر اضطراب بھی سزا سن کر میرے دل کو نہ ہوگا ۔
(مولانا ابوالکلام آزاد)
 ۔
مجاہدین کے ان ہمالیائی جذبوں نے انگریزوں کے قدم ڈگمگادئیے اور وہ بھارت چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔
سلام تم پر اے مجاہدو !
میری جان و تن فدا تم پر اے مجاہدو !۔
تیرے جذبوں اور ہمتوں کو سلام آئے مجاہدو! ۔

پندرہ اگست کے موقع پر منائے جانے والے تقریبات میں اس  کا احتساب ہونا چاہئے کہ مجاہدین آزادی نے جن نیک جذبوں اور حسین خوابوں کے لئے اپنا سب کچھ لٹادیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آزادی کے بعد بھی ان کے جذبوں کا خون ہونے کا سلسلہ حکمراں طبقہ کے ہاتھوں جاری ہے ۔