Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, August 11, 2018

قربانی سے متعلق ایک وائرل ویڈیو۔

یہ صرف ایک گاؤں کا معاملہ ہے. پورے ضلعے میں ایسا نہیں ہے.
یہ ضلع (سَنت کبیر نگر, مرکزی مقام : خلیل آباد) میرا ہی ضلع ہے. اور یہ جس گاؤں کا ویڈیو ہے وہ گاؤں میرے گاؤں سے 5 یا 6 کلو میٹر کی دوری پر ہے.
اس گاؤں کا نام "مُسَہرَہ" ہے.
تقریبا دس سال پہلے قربانی پر ہندوؤں نے اعتراض کیا. اسی پر جھگڑا ہو گیا تھا. تب سے آج تک پولس والے سماجی خیر سگالی اور لا اینڈ آرڈر کا حوالہ دےکر گاؤں کے مسلمانوں کو قربانی نہیں کرنے دیتے ہیں اور عید کے بعد حکومت کو رپورٹ دیتے ہیں کہ یہاں عید پورے امن و سکون سے منائی گئی. !!
ابھی اسی ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد ضلع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس SP نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اسی طرح کی باتیں کہی ہیں. !!
پولس لا اینڈ آرڈر کا حوالہ دیتی ہے. جب کہ لا اینڈ آرڈر کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مسلمانوں کو اُن کا دینی شعار قائم کرنے سے روک دیا جائے. بلکہ مطلب یہ ہے کہ پولس ماحول پر امن بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے, پرامن ماحول میں مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل کرنے دے, اور ماحول بگاڑنے والے فسادیوں کو قابو میں رکھے.
یہ گاؤں ایک ہندو اکثریتی گاؤں ہے. مسلمانوں کے گنے چنے گھر ہیں. مسلمان یہاں ان کے دباؤ میں رہتے ہیں.
مسلمانوں کی وہ برادریاں جو پس ماندہ ہیں اور جن کی سماجی حیثیت کمزور سمجھی جاتی ہے مثلا منصوری (دھنائی کرنے والے), اور "فقیر برادری" (جنھیں کہیں "شاہ برادری" کہیں "سائیں برادری" کہیں "میاں برادری" کہا جاتا ہے) وغیرہ یہاں آباد ہیں. ڈیڑھ دو سو کے درمیان مکانات ہوں گے, جن میں مسلم آبادی بمشکل دس فی صد ہوگی. !!
سچ پوچھیں تو یہ مسلمانوں کو ان کے ایک دینی شعار سے جبرا روکنے کا معاملہ ہے !!
معاملے کی حقیقت اس سے سمجھیں کہ اِسی گاؤں میں پورے سال ہفتہ واری بازار لگتا ہے. !!!
قصائی لوگ بکرے ذبح کرتے ہیں. !!
گوشت بیچتے ہیں. !!
ہندو مسلم سب لوگ بازار کے دن گوشت خریدتے اور کھاتے ہیں. !!
بازار کے علاوہ دنوں میں بھی کھاتے ہوں گے.
یعنی پورے سال وہاں بکرا ذبح ہوتا ہے اور سب لوگ گوشت کھاتے ہیں !!!
مگر
مسلمانوں کو وہاں کے ہندو خاص تین دن بکرے کی بھی قربانی نہیں کرنے دیتے. !!
مسلمان مجبورا چوتھے دن بکروں کی قربانی کرتے ہیں !!
شروع میں معاملہ حل کرنے کی عوامی کوششیں ہوئیں, مگر شروع ہی سے یہ معاملہ مذہبی برتری اور "ناک" کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے. اس لیے حل نہیں ہو سکا.
آج سے آٹھ سال قبل جب یہ مسئلہ اٹھا اس وقت وِدھایک (ممبر صوبائی اسمبلی) اور ممبر آف پارلیمنٹ دونوں مایاوتی کی "بہوجن سماج پارٹی" کے تھے. اور یوپی میں حکومت مایاوتی کی تھی. یہ پارٹی اپنے کو سیکولر بلکہ مسلمانوں کا بہی خواہ کہتی ہے. !!
مسلم وِدھایَک (ایم ایل اے) نے کوشش کی تاکہ قربانی ہو سکے. مگر خبر آئی کہ غیر مسلم ممبر آف پارلیمنٹ نے ہندوؤں کی بےجا طرف داری کی. اور ان لوگوں نے قربانی نہیں ہونے دی !!
تب سے یہی معمول چلا آ رہا ہے.
تماشا تو دیکھیے کہ سال بھر تک اُسی گاؤں میں بکرا ذبح ہوتا ہے گوشت فروخت ہوتا ہے اور لوگ کھاتے ہیں, مگر خاص قربانی کے تین دن وہ لوگ قربانی نہیں ہونے دیتے. !!

اس معاملے کا باوقار حل ایک بہت مشکل مرحلہ ہے.
لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا.

اسی طرح کا ایک گاؤں "فیوسا" Feusa ہے. یہ بھی سَنت کبیر نگر ضلعے میں ہے, اور مُسَہرا" سے اِس کی دوری بمشکل آٹھ دس کلو میٹر ہوگی. یہ مُسَہرا سے مغرب کی طرف ہے.
یہاں بھی مسلمانوں کی وہی حالت ہے. مختصر سی تعداد اور قربانی پر پابندی !!
مگر تھوڑا سا فرق یہ ہے کہ یہاں غربت کی وجہ سے مسلمان پہلے قربانی نہیں کرتے تھے. پھر جب مالی حالت بہتر ہوئی اور بکرے کی قربانی کرنا چاہا تو اکثریتی طبقے کے لوگوں نے قربانی پر اعتراض کیا. معاملے نے طول پکڑ لیا. معاملہ ہائی کورٹ پہنچا اور کورٹ نے مسلمانوں کو قربانی کی اجازت دینے کی بجاے یہ فیصلہ سنا دیا کہ "سابقہ حالت برقرار رکھی جائے" تاکہ کوئی فساد اور جھگڑا نہ ہو. !!
یہ بھی تقریبا سات آٹھ سال پہلے کی بات ہے. تب سے وہاں بھی قربانی نہیں ہوتی. !!

اللہ عزوجل رحم فرمائے اور مسلم سیاسی و مذہبی قائدین کو یہ اور اس طرح کے دیگر معاملات باعزت طریقے سے حل کروانے کی توفیق بخشے.

#نثارمصباحی۔
اسی طرح کی کہانی ضلع اعظم گڑھ میں لوہرا ایک گاوں ہے وہاں پر بھی کسی بھی جانور کی قربانی کی اجازت افسران نہیں دیتے۔وہاں پر پہلے قربانی ہوتی تھی مگر کچھ سالوں پہلے قربانی کو لیکر فساد ہو گیا تب سے حکام اجازت نہیں دے رہے ہیں جبکہ ہائی کورٹ نے وہاں پر قربانی کی اجازت دے رکھی ہے پھر بھی ضلع کے حکام ہر سال لا اینڈ آرڈر کے نام پر قربانی نہیں ہونے دیتے اور ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر پورا موضع پولیس چھاونی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
کیا اعلیٰ سطحی و صوبائی حکام کے پاس اس مسلے کا کوئی حل ہے۔
ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔