Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, August 19, 2018

ترکی کا معاشی بحران۔

*ترکی کا معاشی بحران*

            محمد طارق ایوبی

---------------------------------------------------

رجب طیب اردوغان صدارتی انتخاب جیت کر ترکی کے سب سے طاقتور شخص بن گئے، مگر ابھی چین کا سانس بھی نہ لینے پائے تھے کہ اچانک دجالی نظام کے ٹھیکیدار امریکہ نے ترکی کرنسی لیرا پر کریک داؤن شروع کر دیا، گزشتہ ہفتہ لیرا بمقابلہ ڈالر ۲۰ فیصد نیچے آگیا، یہ بات ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ اگر اردوغان کو کامیابی ملی ہے تو اب ان کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں، آزمائشیں بھی زیادہ ہوں گی، مقابلہ ہمہ جہتی اور سخت ہوگا، وسائل اور معاونین کم ہوں گے، واقعہ یہ ہے کہ ترکی کی گھیرا بندی شروع ہو چکی ہے، امریکہ نے ترکی کے خلاف معاشی جنگ چھیڑ دی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا ترکی مردِ دانا کی قیادت میں ایک بار پھر اس بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو سکے گا؟ تجزیات کہتے ہیں کہ جلد ہی امریکہ کو اس جنگ میں انشاء اللہ منہ کی کھانی پڑے گی، خود امریکی نیوز چینل CNNکے ایک تجزیہ کار نے امریکہ کو خبر دار کیا ہے کہ وہ ترکی سے اپنے معاملات درست کرے ورنہ اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا!
در حقیقت ۲۰۲۳ء سے قبل امریکہ و یورپ ترکی کو پھر سے سو سال قبل کی حالت زار میں پہنچا دینے کے خواہاں ہیں، مگر شاید اس بار مردِ آہن کا یہ آہنی عزم کہ ’’اگر تمہارے پاس ڈالر کی طاقت ہے تو ہمارے پاس اللہ کی طاقت اور عوام کا تعاون ہے‘‘، یورپ و امریکہ کی یہ خواہشیں پوری نہ ہونے دے، امریکہ کی بھر پور کوشش تھی کہ وہ ترکی کو عراق و شام میں گھسیٹ کر ایک ایسے دلدل میں پھنسا دے جس سے نہ صرف یہ کہ اس کا نکلنا دشوار ہوجائے بلکہ وہ خانہ جنگی کا شکار ہوجائے اور اس کی معیشت تباہ ہوجائے، مگر اردوغان نے کمالِ دانشمندی سے امریکی منصوبہ کو ناکام بنایا اور شام میں امریکہ ترکی کے کامیاب آپریشن کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہ گیا، اردوغان نے بڑی حد تک شام۔ ترکی سرحدی علاقہ کو باغیوں اور دہشت گردوں سے پاک کیا، اب اس علاقہ میں تعمیر و ترقی کا بار بھی ترکی اٹھائے ہوئے ہے، خود ترکی میں چالیس لاکھ شامی مہاجرین کا بار اس کے کاندھوں پر ہے، بعض تباہ شدہ ممالک کی تعمیر نو میں اس کا کردار نمایاں ہے، ان سب وجوہات کے سبب اس کی معیشت پر اضافی بوجھ تو پہلے سے ہی تھا، مگر ادھر اچانک عالمی قانونِ تجارت کی یکسر خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکہ نے ترکی سے المونیم اور اسٹیل کے امپورٹ پر ۴۰ سے ۶۰ فیصد تک ٹیکس بڑھا دیا، جس سے فوری طور پر ترک کرنسی پر بھاری اثر پڑا، لیکن اس کو اس طور پر نہیں بیش کرنا چاہیے گویا ترکی معیشت بالکل تباہ ہوگئی ہو، سابق وزیر اعظم اور موجودہ اسپیکر بن علی یلدریم کے مطابق یہ معاشی بحران نہیں سیاسی بحران ہے اور جلد ہی اس پر قابو پا لیا جائے گا۔
واقعہ یہ ہے کہ ترکی و امریکہ کے درمیان جولائی ۲۰۱۶ء سے ہی تعلقات کشیدہ ہونے لگے تھے جبکہ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت میں امریکہ کے ملوث ہونے کے مبینہ ثبوت سامنے آگئے تھے، ترکی نے امریکہ میں مقیم ترک نزاد عالم فتح اللہ گولن کے خلاف دستاویزی ثبوت دے کر حوالگی کا مطالبہ کیا مگر امریکہ نے اسے مسترد کر دیا، معلوم نہیں گولن پر امریکہ کیوں اس قدر مہربان ہے، اس وقت بحران کی ابتدا یوں ہوئی کہ ترکی نے ۲۰۱۶ء کی ناکام فوجی بغاوت میں ملزم امریکی پادری اینڈریوبنسن کو رہا کرنے کے امریکی مطالبہ کو سختی سے مسترد کر دیا، اس کے ساتھ ساتھ جب امریکہ نے ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں عائد کیں تو ترکی نے انھیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کیوں کہ ایران سے تعلقات استوار رکھنا فی الوقت ترکی کی مجبوری ہے، منجملہ دیگر اسباب کے (تفصیل کا موقع نہیں) ترکی تیل ایران سے ہی خریدتا ہے، ادھر امریکہ شام میں اپنی ناکامی پر پہلے ہی کھسیانی بلی کی تصویر بنا ہوا تھا، باوجود اس کے کہ اس نے شام میں باغی کُرد فورسز کو مسلح کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، ترکی فوج نے عفرین پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اس کے ثبوت میں ویڈیوز بھی جاری کیے۔ چنانچہ اس نے ترکی کی کمر توڑنے کے لیے یہ نیا حربہ اپنایا، مگر جناب اردوغان ثابت قدم رہے، وہ ڈرے نہیں، جھکے نہیں، نہ ہی رحم کی بھیک مانگی بلکہ انھوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ’’ہم جھکنے والے نہیں، ہم ۲۰۲۳ء تک کے اپنے تمام منصوبے مکمل کریں گے، ہم نئے دوست اور نئے امکانات تلاش کرکے بھر پور جواب دیں گے، ان مسائل کو بات چیت کے ذریعہ حل کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہم کو دھمکایا نہ جائے‘‘۔
انھوں نے ترک قوم اور ترکی کے بہی خواہوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس برے وقت میں ترکی کی مدد کے لئے آگے آئیں، وہ ڈالر کو فروخت کرکے لیرا خریدیں یا ڈالر کے بدلہ گولڈ خرید کر رکھیں، امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، امریکی الیکٹرانکس کا تو انھوں نے سرکاری بائیکاٹ کا اعلان کر دیا، امریکی شراب اور تمباکو کے پروڈکٹس پر انھوں نے ۱۶۰ فیصد تک کا اضافی ٹیکس عائد کر دیا، اس اعلان سے گویا انھوں نے ایک تیر سے دو شکار کیا، انھوں نے آئی فون کو چھوڑ کر سیم سنگ یا ٹرکش انڈرائڈ کو استعمال کرنے کی اپیل کی اسی طرح امریکی مصنوعات کے بالمقابل ترکی مصنوعات کے استعمال کی درخواست کی، بہت خوش آئند بات یہ ہے کہ اس موقع پر پوری ترک قوم اختلاف فکر و نظر کو بالائے طاق رکھ کر متحد نظر آئی اور اردوغان کی آواز پر لبیک کہا، متعدد ایسے ویڈیوز وائرل ہوئے جن میں ڈالر کو جلاتے ہوئے اور پیروں سے روندتے ہوئے دیکھا گیا، ڈالر کو لیرا میں تبدیل کرتے ہوئے دیکھا گیا، سونا خریدتے ہوئے دیکھا گیا، ترکی سے باہر مقیم بہت سے کروڑپتی ترکوں اور عربوں نے ڈالر فروخت کرکے لیرا خریدا یا دوسری کرنسی خریدی، ترکی میں نوجوانوں کو اپنے آئی فون ہتوڑے سے توڑتے ہوئے دیکھا گیا، اس موقع پر پھر وہی سماں نظر آیا جو خلافت کے تحفظ کے لیے بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں نظر آیا تھا، جو جہاں موجود ہے وہیں اس نے جذباتی طور پر ترکی سے یگانگت ویکجہتی کا اظہار کیا، ایسی اپیلیں جاری کی گئیں کہ کم از کم سو لیرا ہی خرید کر اپنے پاس رکھ لیے جائیں، قطر نے آگے بڑھ کر مواخات کا ثبوت دیتے ہوئے ۱۵ بلین ڈالر کی اضافی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا، ترکی کے دکاندار اپنی دکانوں سے امریکی مصنوعات کو باہر نکال کر پھینکتے نظر آئے، استنبول کے ایک ہوٹل کے مالک نے اعلان کیا کہ جو شخص بھی لیرا کو ڈالر میں تبدیل کرکے آئے اس کی طرف سے مفت مچھلی فرائی سے اس کی تواضع کی جائے گی، متعدد انٹرویوز میں ترکوں کو کہتے ہوئے سنا گیا کہ ہم ایک وقت کھانا کھائیں گے وہ بھی نہ ملے تو گھاس کھالیں گے مگر اپنی ملکی کرنسی کو گرنے نہیں دیں گے، ہمیں امریکی تسلط قطعاً برداشت نہیں ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ جب عوام میں اپنے حکمراں کے تئیں ایسا جذبۂ وارفتگی اور جنونِ حریت اور ایسی سوجھ بوجھ ہو تو پھر ایسے ملک اور ایسے حکمراں کو شکست دینا آسان نہیں، ترک قوم حقیقت پسند واقع ہوئی ہے، اس کو کبھی کوئی غلام نہیں بنا سکا، اردوغان سے ترکوں کی محبت تجرباتی اور تجزیاتی ہے، اردوغان کو ہمیشہ مینڈٹ کارکردگی، حصولیابی، اور خوب سے خوب تر کی امید میں ملتا ہے، ترک اچھی طرح سمجھ گئے کہ یہ ہمیں غلام بنانے کی ابتدا ہے، کیوں کہ موجودہ نظامِ عالم میں ممالک کو تجارتی منڈی بنا کر ہی غلام بنایا جاتا ہے، تجارتی منڈی اور اپنی کالونی بنانے کے لیے ہی جنگیں تھوپی جاتی ہیں، چند ایک ممالک ہیں جنہوں نے پوری دنیا کو بالخصوص مسلم ممالک کوصارفین کی دنیا بناکر رکھ دیا ہے، امریکہ کو کب یہ برداشت ہو سکتا تھا کہ ترک مصنوعات کی ۱۵۰ سے زائد ممالک میں سپلائی ہو، صحیح اور ذاتی اطلاعات کے مطابق متعدد ممالک میں متعدد ترک مصنوعات مارکیٹ پر اپنا قبضہ جما چکی تھیں، اس لیے امریکہ کی طرف سے آج نہیں تو کل یہ تو ہونا ہی تھا، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ شاید امریکہ کا یہ اقدام اس کے زوال کا ہی پیش خیمہ بن جائے، خود اس کے تھنک ٹینک نے بھی اس کو اس سلسلہ متنبہ کیا ہے، اردوغان کی اپیل کا یہ اثرہوا ہے کہ صرف ایک ہفتہ میں لیرا کی حیثیت میں ۶فیصد بہتری آئی ہے اور آئندہ خسارے پر مکمل قابو پالینے کی قوی امید اور روشن امکانات ہیں، اردوغان نے ڈالر کا متبادل تلاشنے پر بھی دوست ممالک کو غور کرنے کا مشورہ دے دیا ہے، اور بہت ممکن ہے کہ اردوغان کا یہ مشورہ امریکہ کے زوال میں کلیدی رول ادا کر جائے، جبکہ ماہرین جانتے ہیں کہ امریکہ بوڑھا ہو چکا ہے، اور اس کے عروج کے مدت پوری ہو چکی ہے، اس کی تہذیب اب اپنے ہی خنجر سے اپنے آپ کو قتل کر رہی ہے، اس کی معیشت پورے طور پر تباہ ہوچکی ہے، وہ اب خلیجی ممالک سے خراج وصول کرکے زندہ ہے جس کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں، تجزیہ کاروں کا یہاں تک کہنا ہے کہ اگر ترکی روس و چین اور ہندوستان سے اپنے تجارتی تعلقات مزید مستحکم کرنے میں کامیاب ہوگیا اور یوریشیائی ممالک کا اعتماد حاصل کر لیا تو وہ ناٹو کو بھی خیر باد کہہ سکتا ہے اور یورپین کسٹم یونین کی رکنیت سے بھی دستبردار ہو سکتا ہے۔
مخلص ماہرین تو پہلے ہی اردوغان کو متبادل تلاشنے کا مشورہ دیتے رہے ہیں، اردوغان نے بھی کبھی امریکہ پر ہی مکمل اعتماد کرنے کی غلطی نہیں کی، چنانچہ باوجود ناٹو اور یورپی کسٹم یونین کا رکن ہونے کے ترکی کا سب سے بڑا تجارتی شریک Business partnerروس رہا ہے، اب روس سے مزید تعلقات مستحکم کرنے کی تگ و دو جاری ہے اور روس کو بھی اپنی ساکھ قائم رکھنے کے لئے کسی مضبوط پارٹیز کی ضرورت ہے۔
بہرحال اس موقع پر ہم صرف اور صرف ترکی کے لیے دعا ہی نہیں کر سکتے بلکہ آگے بڑھ کر اس کا کچھ تعاون بھی کر سکتے ہیں، اس کی مصنوعات جو یہاں ملتی ہوں انھیں خرید سکتے ہیں، ورنہ خلیجی ممالک میں مقیم اپنے اعزہ سے لانے کی درخواست کر سکتے ہیں، ان کے ذریعہ لیرا خرید کر رکھ سکتے ہیں اور اس طرح کا جو بھی طریقہ اپنایا جا سکتا ہو اسے اپنا سکتے ہیں، بین الاقوامی اسفار میں ٹرکش ایئر لائن کا انتخاب کرکے مدد کر سکتے ہیں جو پہلے ہی اسے ٹاپ ایئر لائنز میں شمار ہوتی ہے، سیر وسیاحت کے لئے یورپی ممالک کے بجائے ترکی کے خوبصورت و دلکش اور تاریخی شہروں کی سیاحت کا انتخاب کر سکتے ہیں، یاد رکھیے اگر ہماری گاڑھی اور موٹی کمائی کا تھوڑا سا بھی حصہ ترک کرنسی کی حیثیت کو بچانے میں لگا تو مستقبل کی تاریخ میں ہمارا نام ویسے ہی نمایاں ہوگا جیسے خلافت کو تحفظ فراہم کرنے کی تگ و دو کرنے والوں کا نام زندہ ہے، اگر ترکی اس بحران سے نکل آتا ہے__ اور انشاء اللہ ضرور نکلے گا__ تو امریکی غرور پاش پاش ہوگا، دجالی سانپ کا زہر مر جائے گا اور اس کارِ ثواب میں ہمارا حصہ بھی اللہ کے یہاں محفوظ ہوجائے گا، موجودہ نظام میں اصل جنگ اور برتری اقتصاد کے ذریعہ ہی قائم ہوتی ہے، ملت اسلامیہ کے پاس یہ ایک سنہرا موقع ہے ترکی کو تقویت پہنچانے اور دجالیت کی کمر توڑنے کا، کیا ہمارے اصحاب ثروت اور سرمایہ کار آگے آئیں گے، کیا ہمارے علماء اور دانشوران ان کی رہنمائی کریں گے، کی اہم اس مسئلہ کی اہمیت سے واقف ہوگئے، کیا ہمیں ہوش آیا یا اب بھی نہیں؟ جواب مستقبل دے گا، فی الحال تو اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ اردوغان کا حامی و ناصر بن جائے اور غیب سے ان کی مدد کرے، ملت اسلامیہ کی ناک رکھنے والے ترکی کو ایک بار پھر سر خرو کرے اور اس کی عظمت رفتہ کو بحال فرمائے۔