Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, August 8, 2018

سبق آموز تحریر۔

شہد انسانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ انسان ہر دور میں اسے دواء غذا اور ذائقے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ شہد جس طرح انسانوں کو ملتاہے وہ بھی ایک بڑی دلچسپ و عجیب شئے ہے۔ شہد فطرت کی دیگر نعمتوں کے بر عکس قدرتی طور پر دستیاب نہیں ہوتا بلکہ ایک خاص قسم کی مکھی کی ذہانت، صلاحیت اور محنت کا نتیجہ ہوتا ہے۔یہ عمل اتنا غیر معمولی ہے کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر یہ بیان کی ہے کہ:
"ہم نے شہد کی  مکھی پر اس پورے عمل کو وحی کیا ہے۔"(النخل:16۔67)
اس عمل میں شہد کی مکھی فطرت کے دستر خوان سے ان گنت پھولوں کا رس چوستی ہے اور پھر اسے شہد میں تبدیل کر کے انسانوں کے لئے فراہم کرتی ہے۔
شہد کی مکھی کے برعکس گھروں وغیرہ میں پائے جانے والی ایک دوسری مکھی بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ یہ مکھی عام طور پر گندی اور غلظ چیزوں پر بیٹھتی ہے اور وہیں سے مختلف جراثیم انسانوں کے کھانے پینے کی اشیاء میں منتقل کر دیتی ہے۔ یوں یہ انسانوں کو شہد کے بجائے بیماری کا تحفہ دیتی ہے۔
مکھیوں کی ان دو اقسام کی طرح انسانوں کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ایک انسان وہ ہوتے ہیں جو شہد کی مکھی کی طرح پھولوں اور اس کے رس میں دلچسپی لیتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو انسانوں سے حسنِ ظن رکھتے ہیں۔ان کے متعلق بُرا گمان کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔محض ظن و گمان کی بنیاد پر لوگوں کے متعلق رائے دینے سے پرہیز کرتے ہیں۔
اس کے برعکس دوسری قسم کے لوگ گندگی کی مکھی بننا پسند کرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو انسانوں سے ہمیشہ بدگمان رہتے ہیں۔وہ چن چن کر اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہر بات کے منفی پہلو تلاش کرتے ہیں۔ بلا تحقیق رائے قائم کر تے  اور بلا ثبوت الزام دھرتے ہیں۔ ان کی دلچسپی انسانوں کے نقائص، عیوب، کمزوریوں اور خامیوں تک رہتی ہے۔ یہ کبھی انہیں نہ ملیں تو بدگمانی کر کے انہیں دریافت کر لیتے ہیں اور پھر اطمینان سے ہر جگہ پھیلاتے ہیں۔
پہلی قسم کے لوگ اپنے حسنِ ظن کی وجہ سے معاشرے کو حسنِ نظر اور حسنِ عمل کا شہد دیتے ہیں۔ مگر دوسری قسم کے لوگ معاشرے کو صرف اور صرف بیماریاں دیتے ہیں۔معاشرے میں الزام، بہتان، غیبت، تصحیک اور انسانوں کے تمسخر و تذلیل کی بیماریاں ان کی بدگمانی ہی سے جنم لیتی ہیں۔
ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ آیا اس نے زندگی شہد کی مکھی کے اصول پر گزاری ہے یا گندگی کی مکھی کی طرح وہ غلاظتوں کا اسیر بن کر رہ گیا ہے۔
(از ابو یحییٰ)