Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, August 10, 2018

طلاق ثلاثہ۔

"طلاق ثلاثہ" بل میں
مجوّزہ ترمیمات ناکافی!
. .  . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ترجمان ،مسلم پرسنل لا بورڈ
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
۱۰؍اگست: (صداۓوقت) ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . . . . . . . . 
* تین طلاق بل کے سلسلے میں حکومت کی طرف سے مجوّزہ ترمیمات کے سلسلہ میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سکریٹری وترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے وضاحتی بیان میں کہاہے کہ طلاق ثلاثہ بل میں حکومت کی مجوّزہ ترمیمات ناکافی اور بے فائدہ ہیں، ان ترمیمات سے مسلمانوں کا مطالبہ پورا نہیں ہوتا، بنیادی بات یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا قانون ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے، جس میں قانون شریعت کے اندر مداخلت کی گئی ہو، شرعاََ اگر شوہر تین طلاق دے تو بہر حال طلاق واقع ہو جاتی ہے، یہ اور بات ہے کہ زیادہ تر اہل سنت والجماعت کے نزدیک تینوں طلاقیں پڑ جاتی ہیں، جب کہ بعض اہل سنت نیز اہل تشیع کے نزدیک ایک بار تین طلاق دی جائے تو ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے؛ اس لئے اس قانون کے مخالفِ شریعت ہونے پر مسلمانوں کے تمام مکاتب فقہ کا اتفاق ہے، پھر یہ بات کس قدر غیر منطقی ہے کہ مجوّزہ قانون کے مطابق تین طلاق کالعدم ہوتی ہے، یعنی پڑتی ہی نہیں ہے؛ لیکن اس کے باوجود اس پر سزا متعین کی گئی ہے، یعنی جو جرم واقع ہی نہیں ہوا، اس پر شوہر کو سزا دی جائے گی، پھر نئی ترمیم کے مطابق شوہر کو ضمانت اس وقت حاصل ہوگی، جب وہ مطلقہ بیوی کو معاوضہ دینے کے لئے رضامند ہو جائے، اور معاوضہ کی مقدار بھی شوہر طے نہیں کرے گا؛ بلکہ مجسٹریٹ طے کرے گا، اس میں شوہر پر ناقابل برداشت بوجھ عائد کیا جا سکتا ہے، نیز طلاق دینے میں اگر اس کی زیادتی نہیں ہو، تب بھی وہی سزا کا مستحق ہوگا، مجوّزہ ترمیم میں متأثرہ خاتون یا اس کے خونی رشتہ دار کو مرد کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا حق دیا گیا ہے، رشتہ داروں کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے، عام طور پر عورت خود ایسے واقعات سے متأثر ہوتی ہے؛ اس لئے صرف اسی کو دعویٰ دائر کرنے کا حق ہونا چاہئے، دوسرے رشتہ داروں کو شامل کرنا ناواجبی اور غیر منطقی بات ہے، اور اس کی وجہ سے ایک عورت کے نہ چاہتے ہوئے بھی بدخواہ رشتہ دار اس کے شوہر پر جھوٹا مقدمہ دائر کر سکتے ہیں۔بنیادی بات یہ ہے کہ جس طبقے کے لئے قانون بنایا جا رہا ہے، حکومت نے خود اس سے مشورہ کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیںکی، انصاف کی بات یہ ہے کہ حکومت کو ابھی اِسے سیلکٹ کمیٹی کے حوالہ کرنا چاہئے، اور سیلکٹ کمیٹی کو مسلمانوں کی معتبر تنظیموں اور قانون شریعت سے آگاہ شخصیتوں سے مشورہ کرنا اور ان کے نقطۂ نظر کو سننا چاہئے، اس بل میں سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ طلاق بائن کو بھی تین طلاق کے مماثل مانا گیا ہے، اور اس دفعہ میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی ہے، اس اعتبار سے طلاق بائن کو بھی قابل سرزنش جرم سمجھا جائے گا، اور اس میں خلع کی صورت بھی شامل ہو جائے گی، جس میں خود عورت کے مطالبہ پر شوہر طلاق دیتا ہے؛ کیوں کہ یہ صورت بھی طلاق بائن کے حکم میں ہے، یہ نیز اور متعدد امور ہیں، جن کی وجہ سے یہ مجوّزہ قانون عورتوں کے لئے بھی نقصاندہ ہوگا؛ اس لئے مسلم پرسنل لا بورڈ کا موقف یہ ہے کہ حکومت کو یا تو اس بِل کو واپس لے لینا چاہئے یا سیلکٹ کمیٹی کے حوالہ کرنا چاہئے، یہ صرف حقیقی مسائل کی طرف سے توجہ ہٹانے اور سیاسی فائدہ اُٹھانے کی ایک مذموم کوشش ہے۔