Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, August 13, 2018

طرز زندگی میں قران کی رہنمائی۔

بیماریاں ہوتی نہیں بلکہ پیدا کی جاتی ہیں ۔. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
قمر فلاحی کی تحریر
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

ککر متے کی مثال اب بیماریوں پہ صادق آتی ہے، اتنی بڑی بڑی  بیماریاں اور اتنی آسانی سے ہوجاتی ہیں کہ بس حیرت ہی کی جاسکتی ہے ۔
بیماریوں کی جو وجوہات ہیں اس پہ دنیا متفق ہے مگر اسے دور نہیں کیا جارہا ہے اور جو بیماریوں کے اسباب ہیں اسے خوب بڑھاوا دیا جارہا ہے ۔
صفائی وطہارتhygiene  سے بیماریوں پہ روک لگائی جاسکتی ہے اسی لئے اسلام نے اسے نصف ایمان قرار دیا ہے ،مگر آج بھی صفائ ستھرائ کیلئے حکومتیں تیار نہیں ہیں ۔
قرآن مجید ہر شعبئہ حیات میں رہنما ہے تو اس نے اس شعبہ میں بھی رہنمائ کی ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے  وذا مرضت فھو یشفین ۔ الشعراء ۸۰۔ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ [اللہ تعالی] مجھے شفا دیتاہے ۔
اس آیت کریمہ میں باریکی یہ ہیکہ انسان خود سے بیمار ہوتا ہے ،اللہ تعالی انہیں بیمار نہیں کرتا ہے ۔
بیماریوں کی وجوہات:
گندگی،کھان پان میں بے احتیاطی اور طرز رہائش بنیادی وجوہات ہیں ۔ آج کہنے کیلئے ہمارے کپڑے صاف ستھرے ہوتے ہیں مکانوں میں صفائ ستھرائ ہوتی ہے مگر ماحولیات کو ہم اپنے کرتوتوں سے روز بروز گندہ کر رہے ہیں ،جس جگہ سے ہم پینے کا پانی لیتے ہیں اسی جگہ ہماری لیڑنگ کے چیمبر بھی ہوتے ہیں جس کا پانی رس رس کر زمین میں داخل ہوتا ہے اور پھر ہم اسی پانی کو اپنے استعمال میں لاتے ہیں ۔صاف پانی پینے کا تصور ابھی تک ہمارے سماج میں پروان نہیں چڑھ سکا ہے۔
کھانے پینے کے تعلق سے اسلام کی رہنمائ ہے کہ بھوک لگنے کے بعد کھایا جائے اور تھوڑی بھوک باقی رہے تو کھانا چھوڑ دیا جائے ۔ایک تہائ معدہ کو کھانے سے پر کیا جائے۔ مگر آج ایسا نہیں ہورہا ہے ۔ہم بکریوں کی طرح دن بھر کچھ نہ کچھ کھاتے رہتے ہیں ۔
کھانے کے تعلق سے فطرت کی رہنمائ یہ ہیکہ جو چیزیں انسان کے کھانے کیلئے پیدا کی گئ ہیں اسے اسی شکل میں کھایا جائے ،جہاں تک ہوسکے اس کی اصلیت باقی رکھی جائے ۔مگر اب ایسا نہیں ہورہا ہے ۔اللہ تعالی کی پیدا کی ہوئ چیزیں ہمیں پسند نہیں ہیں مصنوعی چیزوں کے استعمال کو معاشرتی ترقی اور معیار میں اضافہ سمجھا جانے لگا ہے ۔
جانور اپنی فطری غذا سے الگ کھانے کو تیار نہیں ہوتے خواہ اس کی جان چلی جائے اور انسان ہے کہ فطری غذا سے قریب ہونا نہیں چاہتے خواہ اس کی جان چلی جائے ۔
انسانوں کے کھانے کیلئے اللہ تعالی نے اناج ،پھل اور میوہ جات ،سبزیاں، گوشت اور مچھلیا ں پیدا کی ہیں ۔ ہم بریانی پلائو کی شکل میں چاول کی شکل وصورت بدل دیتے ہیں ،پراٹھوں اور پوریوں کی شکل میں گندم کی شکل بدل دیتے ہیں ، پھل کو ترجیح نہیں دیتے دودھ پینا عیب سمجھتے ہیں ۔گوشت ہم اگر کھاتے ہیں تو اسے سالن اور مسالہ بڑھاکر زہریلہ کر دیتے ہیں جبکہ اسے کباب کی شکل میں کھانا زیادہ مفید ہے۔ ہفتہ میں کئ دفعہ گوشت کھانا پسند کرتے ہیں مگر پھلوں کو ہاتھ نہیں لگاتے جبکہ یہ گوشت کے مقابلہ ہمیشہ سستا رہتاہے ۔مچھلییوں کا بھی یہی حال ہے ۔ اب بتائیں کہ ہم کس طرح صحت مند رہ سکتے ہیں ۔؟
اس جانب حکومت کی بھی جو توجہ ہونی چاہیے وہ اب تک نہیں ہے ۔ ہر گٹکھے اور سگریٹ کی ڈبیا پہ لکھا ہوتاہے کہ اس کے استعمال سے کینسر ہوتاہے مگر اس پہ پابندی  نہیں لگائ جاتی ۔
ناجائز صحبت سے ایڈز ہوتا ہے ،مگر ناجائزصحبت اور زنا کے دروازے بند نہیں ہوتے اس کے فروغ کیلئے کنڈوم مفت میں بانٹا جاتاہے ۔کالے دھن پہ روک نہیں لگائ جاتی ،روزگار کے مواقع پیدا نہیں کیے جاتے ، پیداوار کا مناسب استعمال نہیں ہوتا ،جمع خوروں پہ لگام نہیں لگتی مگر آبادی کم کرنے کیلئے فیملی پلاننگ پہ زور دیا جاتاہے ۔
اس طرح ہمارا ملک نہ صحت مند ہو سکتاہے اور نہ ہی ترقی کی راہیں طے کر سکتاہے۔اس جانب تمام شہریوں کو سوچنا ہوگا ،مثبت اقدام کرنے ہوں گے۔
جن یہودیوں کو مال کا بہت زیادہ حریص بتایا گیا ہے آج وہی سب سے زیادہ مال خرچ کرنے کی بات کرتا ہے یہ حیرت ناک ہے ۔آج تک مشروبات وماکولات کے نام پہ ان کے اداروں نے سماج میں جو بھی مصنوعات اتاری ہے وہ انسانیت کیلئے زہر ہے مگر اس پہ کوئی آواز بلند کرنے کو تیار نہیں ہے کیوں کہ اس سے حکومت کو بڑا ریوینو ملتاہے ۔
یہ لوگ دنیا میں بیمار کرکے پھر صحت مند بنانے کی تجارت کر رہے ہیں ۔ جب اس قوم بنی اسرائیل کا زوال ہوگا اس وقت یہ راز اچھی طرح سے دنیا کے سامنے آئے گا اس سے قبل کسی کی جرات نہیں ہے کہ اس کے خلاف آواز بلند کردے۔
کل کو آپ شاید یہ سنیں گے کہ کینسر ٹی بی ،شوگر جیسے امراض ان کے  کوکا کولا، چپس ،میگی،کیڈبیری اور جونسن پائوڈر جیسی مصنوعات کے استعمال سے ہوگئے ۔
ہم دن بدن فطرت سے دور ہوتے جارہے ہیں گویا اللہ کے نظام سے دور ہوتے جارہے  ہیں اور شیطانی نظام سے قریب ہوتے جارہے ہیں ۔ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو ہم فطرت سے قریب رہیں اور قدرتی اشیاء کا استعمال کریں اس طرح ہم نہ صرف بہت سارے امراض سے بچ پائیں گے بلکہ ناجائز اخراجات سے بھی بچ پائیں گے۔ ان شاء اللہ