Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, August 29, 2018

یہودی سازشوں کو سمجھیئے۔؟

یہودی سازشوں کو سمجھئے!

         ۔۔۔۔۔... ازقلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مولاناسیدمحمدواضح رشید حسنی ندوی
  ۔۔۔۔۔۔
دوسری جنگ عظیم سے پہلے، یہود دیناکے مختلف ملکوں میں منتشر تھے، وہ یورپ کے جس ملک میں بھی قیام کرتے فساد، بدامنی،جرائم، تشدد، قتل وغارتگری، دینی ،سماجی اور اخلاقی بگاڑ کی جڑ سمجھے جاتے،ان کا کوئی وطن نہیں تھا، یہودیوں کی یہ حالت دیکھ کر کسی کو یہ توقع نہ تھی کہ یہ قوم کسی وقت کم تعداد میں ہونے کے باوجود ساری دنیا پر حکمرانی کرے گی، آج اسی کا دنیا کی سیاست، معیشت اور نظام حکومت پرکنٹرول وغلبہ ہے، عالمی سیاست انہی کے بنائے ہوئے خطوط پر چلتی ہے، سارے عالمی ادارے، تنظیمیں، سوسائٹیاں، فورم اور بین الاقوامی انجمنیں انہی کے اشارے پر کام کرتی ہیں،حتی کہ عالمی طاقتوں کے تعاون سے اقوام متحدہ میں اپنے مفادات کے خلاف قراردادوں کو ویٹو کروادیتے ہیں، بلکہ ساری دنیا صہیونی اصول و نظریات اور یہودی سیاست پر عمل کررہی ہے، اور تمام نظامہائے حکومت صہیونی مفادات کی دانستہ یا غیردانستہ خدمت کررہے ہیں
دنیا کی سیاست میں اور خود یہودیوں میں اس تبدیلی اور انقلاب کی اصل بنیاد وہ خطرناک منصوبہ ہے جو پوری دنیا میں پھیلی ہوئی پچاس یہودی انجمنوں کے تین سو صہیونی دانشوروں، مفکروں اور فلسفیوں نے پوری دنیا پر حکومت کرنے اور بالادستی حاصل کرنے کے لیے انیسویں صدی کے اوائل میں تیار کیا تھا، اور پھر بیسویں صدی میں اس منصوبہ کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہرطرح کے جائز وناجائز طریقے اور ذرائع اختیار کیے گئے۔

۱۸۹۷ء میں سوئٹزرلینڈ کے پال شہر میں تھیوڈر ہرٹزل کی قیادت میں ساری دنیا پر حکمرانی کا یہ منصوبہ جس وقت تیار کیا گیاتھا اس وقت یہودیوں کی حالت موجودہ حالت سے مختلف تھی اور ان کا یہ منصوبہ ایک حسین خواب سے زیادہ معلوم نہیں ہو رہا تھا، لیکن یہودیوں نے بڑی غیرمعمولی ذہانت سے مختلف خانوں میں رنگ بھرنا شروع کردیا، اور مختلف ذرائع (ذرائع ابلاغ اور ارتکاز دولت) سے بڑی حدتک اپنا ہدف حاصل کرلیا،تسخیر عالم کے اس منصوبہ میں جہاں یہ طے کیا گیا تھا کی تمام دنیا پر حکمرانی کیلئے سونے کے ذخائر پر قبضہ کرنا ضروری ہے، وہیں اس منصوبہ میں ذرائع نشرواشاعت کو بھی بنیادی اہمیت دی گئی تھی ،صہیونی دانشوروں کی دستاویزات کی بارہویں دستاویز میں صحافت کی غیر معمولی اہمیت، اس کی تاثیر وافادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے۔:

’’اگر ہم یہودی پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے سونے کے ذخائرپر قبضہ کو مرکزی اور بنیادی اہمیت دیتے ہیں تو ذرائع ابلاغ بھی ہمارے مقاصد کے حصول کے لئے دوسرا اہم درجہ رکھتے ہیں ۔ ہم میڈیا کواپنے قبضے اور قابو میں رکھیں گے، ہم اپنے دشمنوں کے قبضہ میں کوئی ایسا موثر اور طاقتور اخبار نہیں رہنے دیں گے کہ وہ اپنی رائے کو موثر ڈھنگ سے ظاہر کرسکیں اورنہ ہی ہم ان کواس قابل رکھیں گے کہ ہماری نگاہوں سے گزرے بغیر کوئی خبر سماج تک پہنچ سکے، ہمارے قبضہ وتصرف میں ایسے اخبارات ورسائل ہوں گے جو مختلف گروہوں اورجماعتوں کی تائید وحمایت کریں گے، خواہ یہ جماعتیں جمہوریت کی داعی ہوں یا بغاوت کی حامی، حتی کہ ہم ایسے اخبارات کی بھی سرپرستی کریں گے جوانتشار وبے راہ روی، جنسی واخلاقی انارکی، استبدادی حکومتوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی مدافعت اور حمایت کریں گے، ہم جب اور جہاں چاہیں گے قوموں کے جذبات کو مشتعل کریں گے، اورجب مصلحت دیکھیں گے انہیں پرسکون کردیں گے، اس کے لیے صحیح اور جھوٹی خبروں کا سہارا لیں گے، ہم ایسے اسلوب سے خبروں کو پیش کریں گے کہ قومیں اور حکومتیں ان کو قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں، ہم یہودی ایسے ایڈیٹروں اور نامہ نگاروں کی ہمت افزائی کریں گے جوبد کردارہوں اور ان کا مجرمانہ ریکارڈ ہو، ہمار ا یہی معاملہ بدعنوان سیاستدانوں اور لیڈروں اور مطلق العنان حکمرانوں کیساتھ ہوگا، جن کی ہم خوب تشہیر کریں گے ،ان کو دنیا کے سامنے ہیرو بنا کر پیش کریں گے، لیکن ہم جیسے ہی محسوس کریں گے کہ وہ ہمارے ہاتھ سے نکلے جارہے ہیں بس فوراً ہی ان کی ان برائیوں اور اخلاقی بدعنوانیوں کا اعلان کردیں گے جن پر اب تک ہم نے پردہ ڈال رکھا تھا، اسطرح ہم ان کا کام تمام کردیں گے تا کہ دوسروں کے لیے عبرت ہو، ہم یہودی ذرائع ابلاغ کو خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعہ کنٹرول کریں گے، ہم دنیا کو جس رنگ کی تصویر دکھانا چاہیں گے وہ پوری دنیا کو دیکھنا ہوگا ، جرائم کی خبروں کو ہم تفصیل سے غیر معمولی اہمیت دیں گے، تاکہ قاری کا ذہن تیار ہو، اس انداز سے کہ قاری کو مجرم کے ساتھ ہمدردی ہوجائے‘‘۔

صہیونی دانشوروں نے ذرائع ابلاغ کی اہمیت کا ادراک بہت پہلے کرلیا تھا، ۱۸۶۹ء میں براگ شہر میں یہودی پاپائے اعظم راشورون نے ایک تقریر کے دوران میڈیا کی اہمیت پر زوردیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پوری دنیا پر حکومت کرنے کیلئے سونے
کے ذخائر پر قبضہ کے بعد دوسرے نمبر پر صحافت پر قبضہ کرنا ضروری ہے‘‘۔

چنانچہ ذرائع ابلاغ پر یہودی کنٹرول اور غلبہ کے اثر سے انسانی واخلاقی قدریں اور روایات یکسر بدل گئیں، ہر چیز کا پیمانہ بدل گیا، اعلی انسانی قدریں ، اخلاق اور خیروخوبی کی صفات کو رذائل کا نام دیدیاگیا، اور رذائل ،کمینہ خصلتوں اور بری عادات کو اعلی انسانی قدروں کے نام سے پیش کیا جانے لگا، صہیونی ذرائع ابلاغ (صحافت، لٹریچر،ریڈیو،ڈرامے ، فلموں) نے دنیا کی نظروں میں یہودیوں کی خصوصیات بدلنے، ان کو مظلوم ثابت کرنے اور ان کی تمام قومی خصوصیات کو عربوں کے سر منڈھنے میں زبردست رول اداکیا، اس طرح یہودذرائع ابلاغ کا سہار لیکر امریکی ویورپی قوموں کی نظر میں اپنے کو مظلوم قوم بنانے میں کامیاب ہوگئے، اور یورپی قوموں کے ذہنوں اور دلوں میں یہ بٹھا دیا کہ یہود ان کے دوست ہیں، اور یہودیوں کی حفاظت ومدد ان کا دینی فریضہ ہے، لہذا یورپی طاقتوں نے عالم عربی کے قلب میں یہودیوں کا وطن قائم کرادیا۔ 

اس منصوبہ بند سازش کے تحت پہلی بنیادی تبدیلی یہ واقع ہوئی کہ وہ نصرانی جو تاریخ کے ہر دور میں یہودیوں کواپنے ملکوں سے جلاوطن کرتے رہے اور ان کو تاراج کیا، ان کا وہ عقیدہ ہی بدل گیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو یہودیوں ہی نے مصلوب کروایا تھا، صہیونیوں کا یہ منصوبہ تھا کہ اس عقیدہ کو تبدیل کروائیں جو منجملہ اور دوسری باتوں کے نصرانیوں کو یہودیوں سے نفرت پیدا کرنے کا موجب رہا ہے، انہوں نے بیشمار صہیونی مفکرین اور یہودی دانشوروں کو نصرانی کلیسا کی روایات، قانون، اور ان کے عقائد کے بارے میں تربیت دلوائی، اور سازشیں کرکے ان کو نصرانی کلیسا میں اعلی مناصب دلوائے ، پھر آہستہ آہستہ کلیسا کے اعلی حلقوں میں ان صہیونیوں کا اثر ونفوذ اتنا بڑھ گیا کہ انہوں نے اپنے منصوبہ کے مطابق نصرانیوں کے اس عقیدہ کو تبدیل کروادیا،

۱۹۶۴ء میں کیتھولک کلیسا کی اعلی ترین کونسل میں جو ویٹیکن میں منعقد ہوئی عیسائی پوپ اعظم نے یہودیوں کو حضرت عیسی علیہ السلام کو مصلوب کروانے کے الزام سے جو تاریخی طور پر ثابت ہے بالکل بری الذمہ قرار دے دیا اور یہ اعلان کردیا کہ ’’نصرانیوں کو چاہیئے کہ وہ یہودیوں کو مقہور اور لعنت زدہ قوم نہ سمجھیں، نصرانیوں کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ یہودیوں سے نفرت نہ کریں، اور ان کا استیصال نہ کریں‘‘۔

نصرانی عقیدہ میں یہ تبدیلی بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس سے یہودیوں کی فطانت کا اندازہ ہوتاہے کہ وہ اپنے منصوبے کس طرح ترتیب دیتے ہیں اور کس طرح ان پر عمل درآمد کرتے ہیں، کہ ذرائع ابلاغ اور دولت کے استعمال سے نصرانی کلیسا کا وہ الزام جو دوہزار سال سے یہودیوں پر لگایا جا رہا تھا کس طرح صاف کروا لیا۔ 

صہیونیوں نے ذرائع نشر واشاعت یا انفارمیشن میڈیا میں اتنا اثرونفوذ حاصل کرلیا کہ یہودی میڈیا ہر مخالف لہر کو یہودیوں کے حق میں کر دیتا ہے، یہی نہیں ، بلکہ مخالفین کی تائید وہمدردی حاصل کرلیتے ہیں، یہودی میڈیا نے بہت سے سچے اور صحیح تاریخی حقائق بدل دئے، اور نئے نئے تصورات رائج کردئے، ہولوکوسٹ پر بحث یا لب کشائی کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی، یہودی میڈیا یہودیوں پر کئے گئے مظالم کو ہولناک شکل میں پیش کرتا ہے، انکو معصوم پیش کیا جاتاہے، سامی دشمنی کے نام پر یہودیوں کی تنقید اور ان کے کسی ظلم پر انگلی اٹھانا ممنوع بلکہ قابل سزا جرم قرار دے دیا گیا، گویا سامی صرف یہودی ہی ہیں، حالانکہ اصل سامی تو عرب ہیں، جبکہ عر ب ہی ہر موقع پر ہدف ملامت بنتے ہیں، ان کے عقائد اور مقدسات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، بلکہ عالمی اخبارات، مجلات، رسائل، لٹریچر اور محفلوں میں عربوں کوشب وشتم کرنا محبوب ترین موضوع بن گیاہے، عر بوں اور مسلمانوں کے خلاف ہر جارحانہ کارروائی جائز، تشدد اور ظلم وجور روا، ان کا قتل عام کیا جائے تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، لیکن اگر کسی یہودی کو صرف خراش ہی لگ جائے تو کہرام مچ جاتاہے، عالم اسلام کے موجودہ حالات اس کی واضح دلیل ہیں ۔

اسی طرح قیدیوں کے حقوق اور اغوا اور قتل کے قوانین ہیں، ان میں بھی مسلمانوں کے ساتھ امیتاز برتاجاتاہے، ان کے ساتھ انتہائی گھناونا ، وحشیانہ اور جانوروں سے بدتر سلوک کیاجاتاہے، گوانتانامو، ابوغریب اور دنیا کے مختلف علاقوں میں قائم امریکی خفیہ جیلوں میں قیدیوں کی ہولناک داستانیں اخبارات میں آتی رہتی ہیں، اور مہذب یورپی حکومتوں کا دوسرے ملکوں میں اپنے سیاسی مخالفین کو قتل کروا دینا یا، ان کو اغواکروا لینا اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ لیکن اگر دنیا میں کہیں بھی کسی غیرمسلم،یہودی، عیسائی کا اغوا ہو جائے تو عالمی میڈیا آسمان سر پر اٹھالیتا ہے، اور چند نامعلوم افراد کے عمل کو اسلامی دشت گردی سے جوڑدیاجاتاہے، اور عالمی سطح پر ان اغواشدہ افراد کو چھوڑانے کی کوششیں کی جاتی ہیں، چند سال پہلے امریکہ نے یہ اعلان کیا کہ اسے یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ جب اور جہاں چاہے کسی کو اغوا کرسکتا ہے، اور اس کے سپریم کورٹ نے بھی اس توثیق کردی، اسی کے بعد امریکہ نے برطانیہ کو وارننگ دی کہ امریکہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کیس میں مطلوب کسی شخص کو دنیا میں کہیں سی بھی اٹھا سکتاہے، حالانکہ بین الاقومی قانون یہ ہے کہ اگر کوئی غیر ملکی کسی ملک میں کوئی جرم کرتا ہے اور سزا کا بھی مستحق ٹہرتا ہے تو اسے اس کے ملک واپس کردیاجاتا ہے۔

امریکہ صہیونیوں کے بنائے ہوئے خطوط پر چل رہا ہے اورپوری دنیا پر تسلط اور اقتدار حاصل کرنے لئے تشدد اور دہشت گردی کا وہی طریقہ اختیار کررہاہے جو صہیونیوں نے قیام اسرائیل کے بعد اپنایا کہ بڑی تعداد میں نازی لیڈروں کو اغواکرکے اسرائیل لائے، ان پر مقدمہ چلایا اور پھر موت کے گھاٹ اتاردیا، اسی طرح یورپ اورخصوصاً امریکہ میں سیکڑوں مسلم دانشوروں، مفکروں اور دعوت اسلامی کا کام کرنے والوں کو اغواکرکے ختم کردیا گیا، اور عراق، شام،لیبیا اور مصر میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا جارہا ہے کہ جہاں نام نہاد دہشت گردی کا الزام لگاکر بڑی تعداد میں مسلم اہل عقل ودانش اور اسلامی ذہن رکھنے والوں کا صفایا کردیاگیا، لیکن عالمی میڈیا نے اس پر پردہ ڈال دیا اور خاموشی اختیار کرلی۔ اس سے پہلے بھی مختلف یورپی ممالک اور امریکہ کے زیراثر ملکوں سے اسلامی ذہن رکھنے والوں کو اغواکرکے امریکہ لایاگیا جو آج بھی بغیر مقدمہ کے امریکی جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ بہت پہلے ہی یہ قانون بنایا جاچکا ہے کہ بغیر مقدمہ چلائے کسی قیدی کی مدت سزا نہ بڑھائی جائے، اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی منشور میں بھی یہ دفعہ داخل ہے، لیکن عالمی طاقت غرور وتکبر اور طاقت کے نشہ میں اس قانون کا احترام نہیں کرتی، چنانچہ ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ ومعصوم افراد دنیا کے مختلف ملکوں کی جیلوں میں بغیر کسی مقدمہ کے سڑرہے ہیں اور سخت ترین ایذارسانی اور تعذیب سے دوچار ہیں۔ 

اسرائیل کی دہشت گردی اور جارحانہ پالیسی کی ایک مثال انسانی آبادی والے علاقوں پر بمباری کرنا ہے، جو کہ بین  الاقوامی قانون کی رو سے ممنوع ہے، لیکن اسرائیل شروع ہی سے اس مجرمانہ عمل کا مرتکب ہو رہاہے، اور فلسطین پر علانیہ بمباری کرتا رہتاہے، اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اور جب مسئلہ سلامتی کونسل میں پیش کیا جاتاہے تو امریکہ ویٹوپاور استعمال کرکے اسرائیل کی پشت پناہی کرتاہے، خود امریکہ بھی اسرائیلی سیاست پر عمل پیرا ہے، چنانچہ اس کے بمبار جہاز عراق، افغانستان، شام، لیبیا اور سرحدی علاقوں پر بم برساتے رہتے ہیں، جس کے نتیجہ میں ہزارہا ہزاربے گناہ مرد اور عورتیں اور معصوم بچے دردنگی کا شکار ہوجاتے ہیں، لیکن عالمی میڈیا ان انسانیت سوز واقعات کو بالکل نظرانداز کردیتا ہے گویاکہ کچھ ہوا ہی نہیں، اور دوسری طرف اکادکا انفرادی خودکش حملوں کو عالمی امن وامان کے لئے بڑا خطرہ بناکرپیش کرتاہے۔

انفارمیشن میڈیا پر غلبہ وکنٹرول حاصل ہوجانے کے بعد اسرائیل نے عالمی سراغرساں ایجنسیوں پر بھی کنٹرول حاصل کرلیا، چنانچہ اسرائیلی اور صہیونی خفیہ ایجنسیاں یہودی مفادات کی خاطر دنیا میں سیاسی انتشاروخلفشار اور بے چینی وبے اطمینانی پیدا کرنے کیلئے مختلف علاقوں میں تشدد اور دہشت گردانہ کارروائیاں کراتی ہیں اور پھر عالمی ذرائع ابلاغ یہودی میڈیا کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اسلامی تنظیموں کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں، اور امن وسلامتی سے متعلق ادارے بھی صہیونی اثرونفوذ کی وجہ سے ایک خاص طبقہ کیخلاف کارروائی کرتے ہیں، حالیہ برسوں میں مختلف علاقوں میں پیش آنے والے دہشت گردانہ واقعات کے متعلق انگریزی اخبارات میں ایسی رپورٹیں شائع ہوئیں جن میں قوی دلائل کے ساتھ ان واقعات میں براہ راست امریکہ کا ہاتھ ہونا بتایا گیاہے، لیکن عالمی میڈیا نے ان رپورٹوں کو نظرانداز کردیا اور سیاسی اسباب کی بنا پر سیکورٹی محکموں نے بھی ان پر کوئی توجہ نہیں دی۔

اسی طرح نام نہاد اسلامی دہشت گردی بھی صہیونی دماغ کی اختراع ہے جس کا یہودی اور عالمی میڈیااور ایجنسیوں نے اتنے زورشور سے پروپیگنڈہ کیا کہ موجودہ دنیا کا سب سے بڑامسئلہ بن گیا اور ۹؍۱۱ کے واقعہ کے بعدتوصہیونی لابی نے امریکہ اور خودعالم اسلام کو اس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ پر آمادہ کردیا، حالانکہ خود یورپی میڈیائی رپورٹوں سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ۹؍۱۱ کا واقعہ صہیونی سازش ہے۔ 
عالمی سیاست میں صہیونی اثر ونفوذ کی یہ چند مثالیں ہیں ، انسانی قدروں اور انسانی حقوق کی پامالی اور خلاف ورزی کے واقعات دنیا کے مختلف علاقوں عام ہوچکے ہیں، ایک مثل مشہور ہے :
کہ’’ لوگ اپنے حکمراں کے دین کے تابع ہوتے ہیں‘‘ اور گلوبلائزیشن کے عہد میں دوسری حکومتیں بھی وہی کررہی ہیں جو کچھ امریکہ اوراسرائیل میں ہورہاہے، گویا ساری دنیا ایک حکمراں کے ماتحت ہے یا ایک رہبر کے نقش قدم پر چل رہی ہے، اور وہی بات کہے جارہی ہے جو یہودی میڈیا کہلوا رہاہے ۔
صدائے وقت۔