Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 28, 2018

طنزومزاح۔


چودھری صاحب قبلہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عطا ء الحق قاسمی کی قلم سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنی زندگی میں بہت سے خوراک دشمن دیکھے ہیں لیکن چودھری اللہ وسایا ایسا مرد میدان کم کم ہی دیکھنے میں آیا ہے ۔ چودھری صاحب کھانے کی میز پر بیٹھتے ہیں تو خود کو میدان جنگ میں محسوس کرتے ہیں وہ ’’دشمن‘‘ پر اس طرح جھپٹتے ہیں کہ ان کے ہنر اور چابکدستی کی داد دینا پڑتی ہے ۔ کبھی کبھار جب ان کے دل میں چھری کانٹے سے کھانے کا شوق ابھرتا ہے تو وہ منظر خصوصاً دیدنی ہوتا ہے۔ ’’دشمن‘‘ کے دل پر ان کی اتنی ہیبت طاری ہوتی ہے کہ وہ جان بچانے کے لئے پلیٹ میں ادھر ادھر بھاگنے کی کوشش کرتا ہے مگر چودھری صاحب اس کا پیچھا اس وقت تک کرتے ہیں جب تک وہ ان کی چھری کی زد میں نہیں آ جاتا ، تاہم چودھری صاحب کا کہنا ہے کہ وہ کھانے کو ایک فضول ایکٹویٹی سمجھتے ہیں چنانچہ وہ اس وقت تک کھاتے رہتے ہیں جب تک وہ کھانے سےمتنفر نہیں ہو جاتے یہی عمل وہ اگلے دن بھی دہراتے ہیں بلکہ گزشتہ 65 برس سے دہرا رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ عمل سو سال کی عمر میں بھی اس وقت تک دہراتے رہیں گے جب تک وہ کھانے سے ہمیشہ کے لئے متنفر نہیں ہو جاتے ۔ ان کی یہ کوشش اس حد تک ضرور کامیاب ہوتی ہے کہ انہیں کھاتے دیکھ کر بہت سے لوگ کھانے سے متنفر ہوچکے ہیں
کسی زمانے میں چودھری صاحب کی دشمنی مرغ کے ساتھ زوروں پر تھی جسے وہ ککڑ کہتے تھے۔ ککڑ کو دیکھتے ہی ان کے سارے جسم پر دانت اگ آتے۔ انہوں نے اس زمانے میں اتنے ککڑ کھائے کہ ان کے قریب بیٹھنے والوں کو باقاعدہ بانگیں سنائی دیتی تھیں۔ ان کی مرغ دشمنی کا یہ عالم تھا کہ مرغوں نے صبح کے وقت اس خوف سے اذانیں دینا بند کر دیں کہ کہیں چودھری صاحب ان اذانوں کا پیچھا کرتے کرتے ان تک نہ پہنچ جائیں۔ جس شام کو کوئی مرغ اپنے ڈربے میں صحیح سلامت واپس آتا، مرغیاں سجدہ شکر ادا کرتیں۔ لاپتہ مرغوں کی بازیابی کے لئے مرغیوں نے کئی مرتبہ چودھری صاحب کے گھر کے سامنے مظاہرہ بھی کیا۔ ایک دفعہ تو وہ اسلام آباد بھی گئیں لیکن ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ اس کے بعد چودھری صاحب کی مرغ دشمنی میں اضافہ ہو گیا۔ اس میں کمی تو برڈ فلو کے بعد آئی، چودھری صاحب کا کہنا تھا کہ اب اس مخلوق سے دشمنی کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ اپنی دشمنی پر خود اترآئی ہے۔
چودھری اللہ وسایا جب کھانے بیٹھتے ہیں تو بھوک نہیں دیکھتے ۔ گھڑی دیکھتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ کھانا ڈیڑھ گھنٹے تک کھاتے رہنا چاہئے ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ چودھری صاحب اچھی صحت کے لئے ایکسر سائزبہت ضروری سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ ڈیڑھ گھنٹے تک کھانے کا مطلب ڈیڑھ گھنٹے تک ایکسر سائز کرنا ہے۔ انسان اس دوران لقمہ توڑتا ہے۔ یہ ہاتھ کی ورزش ہے اس کے بعد یہ لقمہ منہ تک لے جاتا ہے یہ بازو کی ورزش ہے، پھر یہ لقمہ منہ میں ڈالنے کیلئے منہ کھولتا ہے یہ منہ کی ورزش ہے پھر وہ یہ لقمہ چباتا ہے یہ دانتوں اور جبڑوں کی ورزش ہے ، چنانچہ اس ورزش کے نتیجے میں چودھری صاحب کی صحت دن بدن پھیلتی جا رہی ہے ، ڈاکٹر کئی مرتبہ انہیں ’’صحت‘‘ کا پھیلائو کم کرنے کا مشورہ دے چکے ہیں۔ بلکہ وہ یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ اگر چودھری صاحب نے اپنی ’’صحت‘‘ کم نہ کی تو وہ فوت نہیں ہوں گے بلکہ ایک دن بیٹھے بیٹھے پھٹ جائیں گے۔ اس پر چودھری صاحب بھرپور قہقہہ لگاتے ہیں۔ اس قہقہے کے دوران چودھری صاحب کے جسم کے مختلف حصے علیحدہ علیحدہ پھڑپھڑاتے ہیں جس کے نتیجہ میں انہیں دوبارہ بھوک لگ جاتی ہے اور وہ ایک بار پھر کھانا کھانے بیٹھ جاتے ہیں ۔
چودھری صاحب کے والد بزرگوار اور ان کے دادا حضور بھی انہی کی طرح بسیا ر خور تھے۔ان بزرگوں کو سیاحت کا بہت شوق تھا چنانچہ یہ جہاں بھی جاتے وہاں کچھ دنوں کے بعد قحط پڑ جاتا۔ مختلف اوقات میں دنیا کے مختلف ملکوں میں جوتاریخی نوعیت کے قحط پڑے ان میں چودھری صاحب کےبزرگوں کا بہت دخل تھا۔ زیادہ دور جانے کی کیا ضرورت ہے کسی زمانے میں ہمارا پنجاب غلے کے معاملے میں خود کفیل ہی نہیں بلکہ غلہ برآمد بھی کرتا تھا۔ اب ہمیں درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چودھری صاحب روایت پسند انسان ہیں وہ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں ۔ چنانچہ ایک خیال یہ ہے کہ پنجاب میں غلے کی پیداوار میں کمی نہیں آتی بلکہ جو زوال نظر آرہا ہے اس میں چودھری صاحب کے کمال کا دخل ہے۔
چودھری صاحب بہت لبرل مسلمان ہیں نماز روزے سے تو کچھ زیادہ رغبت نہیں ہے تاہم ان تمام مذہبی رسموں کے قائل ہیں جن کا تعلق کھانے پینے سے ہے۔چنانچہ خود بھی نذر نیاز کا اہتمام کرتے ہیں اور دوسروں کی طرف سے دی گئی نیاز میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ اپنی طرف سے دی گئی نیاز میں صرف اپنے ان نیاز مندوں کو مدعو کرتے ہیں جو ان کے سامنے سے کوئی چیز اٹھانے کی جسارت نہ کریں۔چنانچہ یہ نیاز مند آخر میں صرف دعا میں شریک ہوتے ہیں ۔ چودھری صاحب چہلم کی تقریبات میں بھی بڑی باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں بلکہ اجنبیوں کے ہاں بھی چلے جاتے ہیں ۔ کہ ایک دن سب کو مرنا ہے چنانچہ وہ ایسے مواقع پر بلاوے کے انتظار میں رہنے کو نفس امارہ کا بہکاوا سمجھتے ہیں ۔ چہلم کی تقریب میں وہ اپنے کھانے کی روٹین یعنی ڈیڑھ گھنٹے کے دورانیے کو دو گھنٹے تک بڑھا دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس کا مقصد محض مرحوم کی روح کو زیادہ سے زیادہ ثواب پہنچانا ہوتا ہے کیونکہ لواحقین نے کھانے کا انتظام کیا ہی مرحوم کی روح کو ثواب پہنچانے کے لئے ہوتا ہے ۔ ایک دفعہ کھانے کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور با آواز بلند مرحوم کی مغفرت کے لئے دعا مانگنا شروع کی جس پر کچھ نوجوانوں نے اٹھ کر ان کی پٹائی شروع کر دی کیونکہ یہ چہلم نہیں دعوت ولیمہ تھی۔ چودھری صاحب دراصل کنفیوژ ہو گئے تھے کیونکہ ان کے ذہن پر وہ دعوت چہلم سوار تھی جس میں انہوں نے ابھی شرکت کرنا تھی۔
صدائے وقت۔