Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 28, 2018

نظریاتی دعویٰ کو عملی شکل دینے کی ضرورت۔

ایک فکر انگیز تحریر۔
از شمس الرب خان۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
عالمی سطح پر یا تو سرمایہ دارانہ نظام ہے، یا اشتراکی نظام، یا ان کا ملغوبہ۔ اسلامی نظام تقریبا معدوم ہے۔ کیا یہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں اور تقریبا پچاس مسلم ممالک کے لیے شرم کی بات نہیں ہے؟! یہ بات سنتے سنتے کان پک گئے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور اس کی رہنمائی معاشرتی، معاشی، سیاسی سبھی میدانوں کو محیط ہے۔ لیکن کیا اس نظریاتی دعوی کو عملی شکل میں پیش یا نافذ کرنے کی کوئی حقیقی اور بارآور کوشش دکھائی دیتی ہے؟ چلیں کسی غیر مسلم ملک میں اقلیت کے درجہ میں رہنے والے مسلمان مجبور ہیں، لیکن کیا وہ مسلم ممالک بھی مجبور ہیں جو خود کو مقتدرہ ملک کہتے ہیں، یا اگر مجبور ہیں بھی تو اس قدر مجبور ہیں کہ غیر اسلامی نظام سے چھٹکارا پانے اور اسلامی نظام کو عملی شکل میں لانے کے لیے تھوڑی سی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کرسکتے ہیں؟!
دراصل، جس طرح مسلمانوں نے اپنے بچوں کی ذہن سازی کی لگام غیروں کے ہاتھوں میں تھمادی ہے، اس سے ان کی پوری کی پوری نسل ذہنی طور پر مفلوج ہوگئی ہے۔ یہ فکری طور پر غلام نسل جس نظام میں سانس لے رہی ہے اسی کو نعمت سمجھ رہی ہے۔ اسی لیے وہ اس نظام کو بدلنے کے احساس تک سے عاری ہوچکی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یہ المیہ ان مسلم ممالک کا بھی ہے جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ آزاد ہیں اور اپنی حدود کے اندر اختیارات کے حامل بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان مسلم ممالک کے حکمران بھی اسی غیر اسلامی نظام کے مداح و معتقد اور بے دام سپاہی ہیں۔ اس صورتحال کو صرف اور صرف ایک ہی چیز سے بدلا جا سکتا ہے اور وہ ہے: ذہن سازی کے آلات اور عوامل کو دوبارہ اپنے ہاتھ میں لینا اور انہیں اسلامی سانچہ میں ڈھالنا۔۔۔ یہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ کم از کم ہم اس کی شروعات اس تعلق سے اپنے اندر حقیقی فکر بیدار کر کے کرسکتے ہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدائے وقت۔