Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, August 17, 2018

قلم کے آنسو۔

کاروان علم وادب کے مایہ ناز گروپ : *قلم کے آنسو* کی جانب سے *تعارف قلم* پیش خدمت ہے ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
*کانپتے ہیں اس کی ہیبت سے سلاطین زمن*
*دبدبہ فرمان رواؤں پر بٹھاتا ہے قلم*
صفحۂ کاغذ پر جب موتی لٹاتا ہے قلم
ندرت افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم
(شورش کاشمیری) 
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
     *تعارف قلم:*۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
’’میرا نام قلم ہے ۔ مجھے ہر انسان اپنی بولی اور زبان میں جدا جدا الفاظ سے یاد کرتا ہے ۔ میرے خالق نے مجھے اپنی آخری کتاب میں لفظ ’’قلم‘‘ سے یاد فرمایا ہے ۔ *(القلم ۱ ۔ العلق ۴) ۔* میری پیدائش ارشاد رسولؐ کے مطابق اس وقت ہوئی جب کہ ابھی میرے رب نے کائنات کے کسی شے کو وجود نہیں بخشا تھا ۔ وجود و ظہور میں سب سے پہلے ’’میں‘‘ ہوں پھر مجھے حکم ربی ہوا کہ’’لکھ‘‘تو میں نے منشائے الہی کے مطابق ہر وہ چیز لکھ دی جو ازل سے ابد تک ہونے والی ہے (ترمذی 3319) *۔ میرا کام لکھنا ہے آواز کی صورت گری کرنا ہے ، فکر و خیال کی مجسمہ سازی ہے الفاظ کو لباس کا جامہ پہنانا ہے ۔ میرا وجود بے جان ہے میں سماعت و بصارت سے خالی ہوں ۔ نطق و بیان میری تحریر ہے ۔ میں اپنی ذاتی فکر و خیال اور ارادہ سے عاری و خالی ہوں ۔ میں خود نہیں چلتا ہوں ، حرکت دینے والا مجھے اپنے ارادہ کے مطابق حرکت دیتا ہے ۔ میں اس بات سے بے خبر ہوں کہ یہ میری کمزوری ہے یا خوبی کہ جو جس طرح اور جس نیت سے چلاتا ہے میں چل پڑتا ہوں ۔ نیک لوگ مجھے بھلے اور اچھے کام کیلئے اور بُرے لوگ اپنی برائی کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔ کبھی میں ایمان کی باتیں لکھتا ہوں تو کبھی کفر کی باتیں ۔ مجھ سے کوئی محبت و مودت کی تحریریں لکھتا ہے تو کوئی نفرت و عداوت کی لکیریں کھینچتا ہے  ۔ کوئی نوک قلم سے دو جدا دلوں کو محبت کے ٹانکوں سے جوڑتا ہے تو کوئی نوک قلم سے زہریلے سانپ کی طرح ڈس کر دو دلوں کو مسموم کرتا ہے ۔ کبھی میں متقی و خدا ترس کے ہاتھ میں ہوتا ہوں تو کبھی فاسق و فاجر کے ہاتھ میں ۔ متقی و خداترس لکھنے سے قبل سوچتا ہے ۔ لکھتے ہوئے خدائی استحضار رکھتا ہے لکھ کر لکھی ہوئی عبارت کا بے لاگ جائزہ اور محاسبہ کرتا ہے ۔*
میرا کام زبان کی مانند ہے ، فرق یہ ہے کہ زبان کے الفاظ سنے جاتے ہیں جب کہ میرے الفاظ دیکھے بھی جاتے ہیں۔ زبان سے نکلے الفاظ فضاؤں میں تحلیل ہوجاتے ہیں جب کہ میرے الفاظ منقش پتھر کی طرح محفوظ ہوجاتے ہیں ۔ بولی کا زمانہ مختصر اور میرا زمانہ تا دیر بولی کو وہ مقام حاصل نہیں جو لکھائی کو حاصل ہے ۔ جو اصول و آداب زبان کی بولی کے ہیں وہی احکام قلم کی لکھائی کے ہیں جس طرح زبان سے بولنا اور پڑھنا رب کے نام سے ہو (علق ۱) اس طرح قلم سے لکھنا بھی رب کے نام سے ہو زبان کے بول میں خیر ضروری ہے ورنہ خاموشی بہتر (بخاری 6476) ۔ یہی اصول حرکت قلم کے وقت ہے جس طرح زبان سے کہی بات کی تحقیق ضروری ہے(حجرات ۶)*( اسی طرح تحریر قلم کی تحقیق ضروری ہے ۔ زبان کا ایک بول رضائے خداوندی کا سبب ہوسکتا ہے (بخاری 6113) ۔ قلم کا ایک جملہ بھی یہی شان رکھتا ہے جس طرح زبان کا ہر بول کاتبان اعمال فرشتوں کی گرفت میں ہے (ق 18) یہی نگرانی کا نظم ، تحریر کلام پر  بھی قائم ہے ۔ زبان کی نرمی ، کلام میں خوبصورتی اور اس کی سختی بدصورتی کو جنم دیتی ہے (کنز العمال 3776) یہی کیفیت بیان تحریر کی بھی ہے !