Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, August 15, 2018

مولانا آزاد کی تقریر سے ایک اقتباس۔

امام الہند مولانا آزاد کی تقریر سے اقتباس اور ایک زبردست پیشنگوئ
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  
جب میں نے مسلم لیگ کی اس پاکستانی اسکیم کی تمام تر پہلوؤں پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پورے ہندوستان کیلئے اس اسکیم کے جو بھی نقصانات ہیں وہ اپنی جگہ لیکن مسلمانوں کیلئے بھی یہ تجویز سخت تباہ کن ثابت ہوگی ۔ اس سے اُن کی کوئی مشکل حل ہونے کے بجائے مزید مشکلیں پیدا ہوجائینگی ۔
اول تو پاکستان کا لفظ ہی میرے نزدیک اسلامی تصورات کے خلاف ہے ۔ پیغمبر اسلام ؐ کا ارشادہے کہ :
’’اللہ تعالیٰ نے تمام روحِ زمین کو میرے لئے مسجد بنا دی ‘‘
میرے مطابق اس روحِ زمین کو یوں پاک اور نا پاک میں تقسیم کرنا ہی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔ دوسری یہ کہ یہ پاکستان کی اسکیم ایک طرح سے مسلمانوں کی شکست کی علامت ہے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 10 کروڑ کے اندر ہے اور وہ اپنی زبردست تعداد کے ساتھ ایسی مذہبی و معاشرتی صفات کے حامل ہیں کہ ہندوستان کی قومی و وطنی زندگیوں و پالیسیوں اور نظم و نسق کے تمام معاملات پر فیصلہ کن اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ پاکستان کی اسکیم کے ذریعے ان کی یہ ساری قوت و صلاحیت تقسیم و ضائع ہو جائے گی اور میرے نزدیک یہ بد ترین بزدلی کا نشان ہے کہ میں اپنے میراثِ پدری سے دستبردار ہو کر ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر قناعت کر لوں ۔ میں اس مسئلے کے دوسرے تمام پہلوؤں کو نظر انداز کرکے تنہا مسلم مفاد کے نقطہ نگاہ سے بھی غور کرنے کیلئے تیار ہوں اور پاکستانی اسکیم کو کسی بھی طرح سے مسلمانوں کیلئے مفید ثابت کر دیا جائے تو میں اسے قبول کر لوں گا اورد وسرے سے اسے منوانے پر اپنا پورا زور صرف کر ڈالوں گا ، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس اسکیم سے مسلمانوں کی اجتماع و ملکی مفاد کو زرا بھی فائد ہ نہ ہوگا اور نہ اُن کا کوئی اندیشہ دور ہو سکے گا ۔ ہاں جو تجویز اور فارمولہ میں نے تیار کیا تھا کہ جسے کامرہ مشن اور کانگریس دونوں سے ہی منظور کروالینے میں مجھے کامیابی بھی حاصل ہوئی اور جسکی روح سے تمام صوبے مکمل طور پر خود مختار قرار دے دیئے گئے تھے کہ جس میں پاکستانی اسکیم کی وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو اُن نقائص سے پاک ہیں جو اُن کی اسکیم میں پائے جاتے ہیں ۔ آپ اگر جذبات سے بالا تر ہو کر اسکے ممکنہ نتائج پر غور کریں تو ہندو اکثریتی علاقوں میں کروڑوں کی تعداد میں یہ مسلمان مگر چھوٹی چھوٹی اقلیتوں کی صورت میں پورے ملک میں بکھر کر رہ گئے اور آج کے مقابلے میں آنے والے کل میں اور بھی زیادہ کمزور ہو جائیں گے ۔ جہاں اُن کے گھر بار ، بد دو باش ایک ہزار سال سے چلی آ رہی ہے اور جہاں اُنہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کے مشہور و بڑے بڑے مراکز تعمیر کئے ، ہندو اکثریتی علاقوں میں بسنے والے یہ مسلمان ایک دن اچانکصبح آنکھ کھولتے ہی اپنے آپ کو اپنے وطن میں پڑوسی اور اجنبی پائیں گے ۔ صنعتی ، تعلیمی و معاشی لحاظ سے پسماندہ ہونگے اور ایک ایسی حکومت کے رحم و کرم پر ہونگے جو خالص ہندو راج بنے گی ۔ پاکستان میں اگر خواہ مکمل مسلم اکثریتی حکومت ہی قائم کیوں نہ ہو جائے اس سے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کا مسئلہ ہر گز حل نہیں ہو سکے گا ۔ یہ دو ریاستیں ایک دوسرے کے مد مقابل ایک دوسرے کی اقلیتوں کا مسئلہ حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتی ۔ اس سے صرف یرغمال و انتقام کا راستہ کھلے گا ۔
ماخوذ۔