Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 14, 2018

پر فریب جشن آزادی

پُرفریب_یومِ_آزادی!
یہ لہو، یہ لاشیں، یہ نفرت کی آگ اور جشن کا مذاق:

آئین ہند جل رہاہے، کہنے کے لیے نہیں، بلکہ  اسے چند دنوں پہلے عملاً نذرآتش کیاگیاہے، ہندوستان کی سب سے معزز کتاب جس کی توہین پر یہ سزا ہے کہ ایسے مجرموں کی ہندوستانی شہریت منسوخ کردی جائے گی، لیکن یہ کتاب جلائی گئی، اور ابھی آزادی کے مہینےمیں جلائی گئی، منوسمرتی کے نفاذ کا الارم بجایا گیا، لیکن دوسری طرف نفرتوں اور ظلمتوں کی پرشور وادیوں میں ایک بار پھر غلامانہ آزادی کا یوم فریب برپا ہونے جارہاہے، روایتی شان و انداز کے ساتھ یوم آزادی کی تقریبات برپا ہونے جارہی ہیں، ہندوستان کی مرکزي حکومت جس کا بنیادی نقطۂ نظر آزادی کی قدروں کے خلاف منوسمرتی والا ہے وہ  بھی یوم آزادی منائیں گے، ان کی نمائندگی اور سرکردگی میں پورا ملک یوم آزادی کے جشن میں ڈوب جائے گا، سبھی کو آزادی کی غرقابی تہہ دل سے  مبارک ۔
لیکن آج درحقیقت یوم احتساب ہے، جمہوری قدروں کو ہندوستان نے کس طرح حاصل کیا تھا؟ اور کس لیے حاصل کیا تھا؟ جن بنیادوں پے جمہوریت قائم کی گئی تھی، کیا آج ان کی ساکھ باقی ہے؟
ستر سال سے جاری ہندوتوائی ریشہ دوانیاں اب منہ کھول کر کھڑی ہیں ان کی پیاس تیز ہورہی ہے وہ اپنی بالادستی والے شودرواد کے محل پر اب علانیہ حکم رانی چاہتےہیں، اور پہلی بار آزاد بھارت کو دستور ہند جلاکر یوم فریب پر تحفہ بھیجا ہے
آپ یوم آزادی ضرور منائیں، لیکن گائے کے نام پر قتل ہونے والے سینکڑوں معصوموں کا خون بھی یاد رکھیں،
اور جائزہ لیں، *آپ کے آس پاس ایک بھیڑ ایک جم غفیر خوف اور ہراس کی نفسیات کے ساتھ بوکھلا کر، جشن آزادی کی طرف دوڑتی نظر آئے گی، اور اپنی وطنی وفاداری کو ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی تصویریں اور تقاریب پرچار کی میز پر رکھے گی!  ۔*
ہمارے ملک کے سربراہان کا لفظی نعرہ سواسو کروڑ ہندوستانیوں کے لیے ہوتاہے، لیکن اس خوش بیانی کی زمینی حقیقت یہ ہیکہ، ملک بھر کے اہم عہدوں پر RSS کے تربیت یافتہ افراد کا تقرر کیا جارہاہے، تقریباﹰ سسٹم پر ایک مخصوص ذہنیت قابض ہوتی جارہی ہے، اُس سسٹم کے مخلص افراد کا حشر جسٹس برج گوپال لویا کی صورت میں سامنے آرہاہے، سماج کے مخلص افراد کا حال، گووند پانسرے، اور گوری لنکیش کی صورت میں سامنے آرہاہے، صورتحال اسقدر بے قابو ہوچکی ہے، کہ سپریم کورٹ کے چار، چار ججز کو بھی میڈیا کا سہارا لیکر اعتراف کرنا پڑرہا ہے، کہ جمہوریت خطرے میں ہے، دوغلے پن کا عالم یہ ہیکہ، ایک ہی جمہوری ملک میں کشمیر کے مظاہرین کے لیے پیلیٹ گنوں کے دہانے کھول دیے جاتے ہیں لیکن اُسی جمہوری ملک میں رام رحیم کے غنڈوں کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے، اسی آزاد ملک میں کانوڑی یاترا کے نام پر کھلے عام سرکاری و عوامی املاک کو نشانہ بنانے والے انتہا پسندوں پر پولیس محکمہ پھول برساتا ہے،  سپریم کورٹ نے ایک فلم کو ریلیز ہونے کی آزادی دی، اجازت دی، لیکن راجپوت کرنی سینا نے ملک بھر میں جنگ چھیڑنے کا اعلان کردیا،  سرکاری املاک اور عوامی ذرائع نذرآتش ہوئے، لیکن نا پیلیٹ گن نظر آتیں ہے نا ہی جوانمرد افواج، کرنی سینا سپریم کورٹ کے حکمنامے کو دندناتے ہوئے کچلتی پھرتی ہے، لیکن آزاد حکومتیں مجبور ہیں ۔
*یوم آزادی کا جشن منانے کو آخر ایسا کیا ہے؟*
آئیں، ذرا سوچیں جذباتیت سے پرے بنیادی ضروریات کے متعلق سوچیں،
*کیا ہندوستان سے بے روزگاری ختم ہوگئی؟*
*کیا ہماری عوام کو صاف ستھرا کھانا، حفظان صحت اور اچھی تعلیم مل رہی ہے؟*
*کیا ہمارے ملک سے غریبی کا صفایا ہوگیا؟*
کیا خط افلاس سے نیچے جانے والوں کی تعداد میں کمی ہوئی؟
یقینًا نہیں!
تو پھر ایک انسانی دل و دماغ اور سچے ہندوستانی کی حیثیت سے سوچیں، اتنی گئی گذری اور بپھرتی صورتحال میں کروڑوں اور اربوں کے جشن کا کوئی جواز ہے؟ کاہے کی پریڈ اور کیسی پرچم کشائیاں؟ جبکہ پرچم معصوموں کے خون سے آلودہ اور اپنی معنویت کے لحاظ سے سرنگوں ہورہا ہو، تو پہلے ضرورت اس کی معنویت کو مستحکم کرنے کی ہے، اس پرچم کے سہارے سسٹم میں گھس کر خون چوسنے والوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا عزم ہوناچاہیے، اس کے علاوہ جشن در حقیقت:
*ہماری عوام کی غربت کا، کسانوں کی خودکشی کا، سسٹم کے چند ہاتھوں میں یرغمالی کا، پھیلے ہوئے کرپشن بچوں کی غذائی قلت اور ہماری غربت کا جشن ہے ۔ حب الوطنی کے کھوکھلے خول اور سیکولرزم کے پھٹے ڈھول سے سے باہر نکلیں تو حقیقتاً جشن آزادی ایک ظالمانہ اور بھدا مذاق ہے، جہاں نصف سے بھی زائد ہمارے بچے غذائی قلت کے شکار ہوں، 1.25 ملین ہندوستانی آبادی میں سے %75 فیصدی آبادی کھلے طور پر خوفناک غربت اور بدترین ڈر اور خوف کی نفسیات میں جی رہی ہو، جہاں باشندے بنیادی تعلیمی سہولیات کو ترس رہے ہوں، جہاں نئے انڈیا کے نعروں تلے عورتوں پر آج بھی قدیم رواجی مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہوں، مادر رحم سے قتل سے لیکر پیدائش کے معاً بعد اور شادی تک صنف نازک کو قتل کردینے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، جہاں کسانوں کی خودکشی کا سلسلہ برابر جاری ہو، جہاں ہر طرح کی " اچھی سرکار " کے باوجود کرپشن ہرطرح اور ہر طرف چھایا ہوا ہو، جہاں کے نیتا اپنی عوام کا استحصال کرتے ہوں، ایسی جگہ پر یوم آزادی کا جشن!! یہ مذاق ہے ایک بدترین مذاق ہے!*
ايک انسان ہونے کی حیثیت سے شرمساری کا مقام ہیکہ، ہمارا ملک آج بھی استحصالی ہاتھوں میں ہے، جمہوریت کی باگ ڈور استحصالی ہاتھوں میں ہے، ملک کی اکثریت، مذہب کے نام پر، عقیدت اور حب الوطنی کے نام پر کہیں ماری جارہی ہے، کہیں زندہ جلائی جارہی ہے، تو کہیں بے وقوف بنائی جارہی ہے، ملک کی سیدھی سادھی اور بھولی بھالی عوام یہ سب سہتی ہے، مرتی ہے، کٹتی ہے، ملک کے لیے، مذہب کے لیے، کانسٹی ٹیوشن کے لیے، ایسے میں جشن آزادی مذاق ہے!
*اپنی عوام اور برادران وطن کے ساتھ اس مذاق میں آپ شریک ہوجائیں، لیکن میں جاننے کے باوجود اس مذاق میں شریک ہوجاؤں، خدارا اسقدر انسانیت سوز امیدیں مجھ سے قائم نا کریں میرا ضمیر مجھے ایسے ڈھونگ پر آج تک آمادہ نہیں کرسکا ہے۔*
*ہوسکتاہے آج آپ مجھے منفیت سے موسوم کریں، بالکل کریں، یہ آپ کا فرض ہے، اور میرا اعزاز ہے میرا حق ہے،  دراصل اپنے اہل وطن کے ساتھ ہورہے مذاق نے مجھے منفی بنادیاہے، یہاں انسانیت پر جو غیر انسانی بلکہ حیوانی ستم ڈھایا جارہاہے، اس انسانیت کے کرب میں، مجھے ڈھکوسلہ باز مثبتیں نظر نہیں آتیں،جمہوریت کو قتل کرنے کا عزم رکھنے والے جمہوریت کا پرچم اٹھائیں، پوری ڈھٹائی سے اسی کے سہارے اپنے مکروہ عزائم پر عملدرآمد کریں پھر انہی کے ساتھ جشن جمہوریت کے کیا معنی؟ آپ اپنے مثبت اور اعلیٰ ترین دماغ کے ساتھ ایک روشن ہندوستان دیکھتےہیں، لیکن میں اپنے دل و دماغ سے دیکھتا ہوں، تو ہندوستانیوں کو رنجور پاتا ہوں، افسرده و پژمردہ پاتا ہوں۔*
میں سلامی دیتا ہوں ترنگے کو، میں چومتا ہوا جمہوریت میں موجود انسانی قدروں کو، لیکن ان دونوں کو میں سسکتا، بلکتا پاتا ہوں، ان پر رنگ آمیزی تو نظر آتی ہے البتّہ ان کی جاذبیت کہیں گُم ہوگئی ہے، میں اپنے کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ کر ترنگے کو سنواروں گا، سجاؤں گا، اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے عزائم تیار کرونگا لیکن میں جشن آزادی میں لٹیروں اور ڈاکوؤں اور جمہوریت کے قاتلوں کے ساتھ ہرگز شرکت نہیں کرونگا ۔
*میں بھی جشن جمہوریت مناؤں گا، لیکن تب، جبکہ میرے ہندوستان کی عوام عمدہ بودوباش سے خوشحال ہوجائے گی، اعلیٰ تعلیم انہیں حقیقی ترقیات کے زینوں پر گامزن کردے گی، میرے دیش واسی اس ملک میں آزاد ہوں گے، خوف سے آزاد ہوں گے، ڈر سے آزاد ہوں گے، نفرت سے آزاد ہوں گے، یہ تبھی ممکن ہے جب ہم سچ بولیں، حق بولیں اور حق کریں، اسوقت ہماری آزادی ظلمات کے سائے تلے ہے، یہ آزادانہ سحر ہرگز نہیں ہوسکتی، یہ آزادی ظالموں اور نفرت کے سوداگروں کے گھیرے میں ہے، اسلئے میں اسے آزادی کبھی نہیں کہہ سکتا*
*مجھے یقین ہے، میرا عقیدہ ہے، میرا عزم ہے، کہ ایسا دن میرے اسی ملک میں ضرور آئے گا، گرچہ میری موت کے بعد آئے، مدتوں بعد آئے، اُس دن میری روح سرشار ہوگی، اس دن میری روح آسمانی بلندیوں اور فضاؤں کی خنکی میں سماکر مادر وطن پر نچھاور ہوگی، اس دن میں جشن مناؤں گا، پھول اور گلاب کی پتیاں لطف و سرور کی کیفیات کے ساتھ آزادانہ نچھاور کروں گا۔*
کہ:
میری رات منتظر ہے کسی اور صبحِ نو کی
یہ سحر تجھے مبارک، جو ہے ظلمتوں کی ماری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صداۓوقت
سمیع اللّٰہ خان