Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, August 20, 2018

جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے۔

*جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔آج کی میڈیا کے تعلق سے ایک فکر انگیز تبصرہ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
               ازقلم:

ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .. 

بچپن سے ہی یہ کہاوت سنتے آئے تھے، جب کوئی بے پر کی اڑاتا تھا تو بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے جو چاہو کہو ’’جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے‘‘۔
لیکن اس کہاوت کا جس قدر انطباق جمہوری طرز حکمرانی پر ہوتا ہے شاید ہی کسی اور پر ہوتا ہو، میڈیا جمہوریت کے چار بنیادی ستونوں میں سے ایک اہم ستون ہے، لیکن اس نے گویا اس کہاوت کو ہی اپنا نصب العین بنا لیا ہے، بے پَر کی اڑانا، رائی کو پہاڑ بنانا، مجرم کو پاکباز ثابت کرنا، نکمے اور بے کار شخص کو مسیحا بنا کر پیش کرنا میڈیا کا ہتھکنڈہ بن چکا ہے، عریانیت کو عام کرنا، جنسی ہیجان برپا کرنا، کھوٹے اور سڑے مال کی اشتہار بازی کرنا اس کا پسندیدہ عمل ہے، میڈیا نے جمہوریت کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں، پیسہ کمانے کی ہوڑ میں وہ اندھا ہو چکا ہے، میڈیا جھوٹ کو جذبات کے استحصال کا ذریعہ بنا کر پیش کرتا ہے اور اس طرح وہ ایک ایسی حکومت یا حکمراں کو کسی ملک پر مسلط کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جو ملک کی جڑیں کھوکھلی کردے، ملک کو غریبی کے دلدل میں پھنسا دے، اس کی رفتار ترقی پر بریک لگا دے، ملک میں فساد وکرپشن عام ہوجائے، جگہ جگہ انسانی خون کی ہولی کھیلی جائے، سچے اور شریف انسانوں کو سڑکوں پر دوڑا دوڑا کر پیٹا جائے، (سوامی اگنی ویش کو رانچی اور پھر دلی میں پیٹنے کا واقعہ کوئی پرانا نہیں)، کرنسی گرتی جائے اور مہنگائی و بے روزگاری بڑھتی جائے مگر میڈیا ہے کہ ’’جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے‘‘ والی کہاوت کا دامن چھوڑنے کو تیار نہیں، صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتاہے کہ ؂

*دوزخ کے انتظام میں الجھا ہے رات دن*
*دعویٰ یہ کر رہا ہے کہ جنت میں جائے گا*
یوں تو جمہوری طرز حکمرانی اور بالخصوص موسم انتخابات میں اس کہاوت کی اہمیت دو بالا ہوجاتی ہے، مگر واقعی اگر اس کہاوت کو مجسم دیکھنا ہو یا کسی پر صد فیصد اس کہاوت کو منطبق ہوتا ددیکھنا ہو تو وطن عزیز کے ’’سب سے بڑے خادم‘‘ کی شخصیت کا مطالعہ کرنا چاہیے، اگر آپ نے ذرا بھی غور سے مطالعہ کیا تو بے ساختہ کہہ اٹھیں گے ؂

*کچھ اور کام تو جیسے اُسے آتا ہی نہیں*
*مگر وہ جھوٹ بہت شاندار بولتا ہے*

واقعہ یہ ہے کہ اس وقت سیاست جھوٹ اور اداکاری سے ہی چل رہی ہے، ان ہی اوصاف کے ماہرین کی سیاست میں پذیرائی بھی ہے، بقول شاعر ؂

*واقف ہے خوب جھوٹ کے فن سے یہ آدمی*
*یہ آدمی ضرور سیاست میں جائے گا*

ابھی ۱۵ اگست کو ایک گھنٹہ بائیس منٹ کی تقریر لال قلعہ کی فصیل سے فرمائی گئی، اس تقریر کا سب سے بڑا جھوٹ یہ تھا کہ محترم فرما رہے تھے ’’میں ملک کو بیچنے نہیں دوں گا‘‘ حالانکہ جس فصیل پر کھڑے وہ یہ دعوی کر رہے تھے، آزادی کی علامت وہ فصیل بھی ان سے سنبھالی نہ گئی اور اس کو بھی کرایہ پر ایک پرائیوٹ کمپنی کے حوالے کر دیا، اس تاریخی خطاب میں بے شمار جھوٹ بولے گئے کیوں کہ ’’جھوٹ کے پاؤں ہی نہیں ہوتے‘‘ مگر اب دنیا اتنی بے وقوف نہیں رہی، اب تو فورا ہی تحقیقات شروع ہوجاتی ہیں اور منٹوں سکنڈوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے، اب زمانہ بدل چکا ہے، بے پاؤں کے جھوٹ کے آثار و نقوش بھی تلاش لیے جاتے ہیں۔
ذرا دیکھیے حضور انتہائی اعتماد کے ساتھ پورے ملک کو سمجھا گئے کہ ’’ابھی ڈبلیو ایچ او World health organizationکی رپورٹ آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’صفائی مہم، سوچھ بھارت ابھیان‘‘ کی وجہ سے بھارت میں تین لاکھ بچوں کی جان بچ گئی، اگر یہ نہ ہوتا تو یہ تین لاکھ بچے نہ بچ پاتے‘‘، ہمیں تو اپنے آس پاس کہیں اس صفائی مہم کے اثرات نظر نہ آئے بلکہ گزشتہ سال گجرات ماڈل کے مرکزی شہر احمد آباد کا سفر ہوا تو وہاں بھی اس کے اثرات دیکھنے کو نہ ملے بلکہ شہر کے وسط میں کوڑے کا پہاڑ دیکھنے کو ملا، بہرحال اس دعوے کی حقیقت یہ ہے کہ WHOنے اپنی ایک رپورٹ میں سوچھ بھارت ابھیان پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ’’اگر اس پروگرام یا اس مہم کو سوفیصد نافذ کر دیا جائے تو اکتوبر ۲۰۱۹ء تک تین لاکھ بچوں کی جان بچائی جا سکتی ہے‘‘، مگر بھلا ہو جھوٹ کا کہ ۱۵ اگست ۱۸ء میں ہی تین لاکھ بچوں کی جان بچانے کا اعلان کر دیا گیا اور ملک کے عوام کو یہ کہہ کر خوش کیا گیا کہ ’’بھارت کا کون سا ایسا انسان ہوگا جس کو اس مہم میں شامل ہوکر تین لاکھ بچوں کی جان بچانے کا موقع نہ ملا ہو‘‘۔
آگے صاحب نے فرمایا کہ ’’بھارت کے پاسپورٹ کی عزت بڑھ گئی ہے، دنیا کا کوئی بھی دیش کسی بھی بھارتی کا استقبال کرنے کو تیار رہتا ہے‘‘، پاسپورٹ کی عزت بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاسپورٹ کو کتنے ملکوں میں آسانی سے on arrival visaحاصل ہوجاتا ہے، اگر اس دعوے کی حقیقت جاننا ہو تو آپ Global Passport Power Indexلکھ کر علامہ گوگل کے مفت انسائیکلومیڈیا میں جواب تلاش کیجئے تو پتہ چلے گا کہ ہمارے پاسپورٹ کو ۶۵ ویں پائیدان (65th rank) پر رکھا گیا ہے، جبکہ ایک ایک رینک پر کئی کئی ممالک بھی ہیں اس طرح ہمارے پاسپورٹ سے پہلے تو تقریبا 150ممالک کے پاسپورٹ ہیں، مگر ظاہر ہے کہ اس جھوٹ کی حقیقت کو کتنے لوگ جاننے کی کوشش کریں گے، عوام تو خوش ہوکر اسے وطن کی عزت میں اضافہ اور حکومت کی کامیابی ہی شمار کریں گے۔
اس خطاب میں صاحب نے فرمایا کہ ’’اس وقت ملک سے شہد کا ایکسپورٹ دوگنا ہو گیا ہے‘‘، اگر اس کی حقیقت آپ انٹر نیٹ پر تلاش کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ شہد کے ایکسپورٹ میں ہمارا ملک گیارہویں نمبر پر ہے بلکہ پچھلے سال کے مقابلہ اس سال شہد کے ایکسپورٹ میں اچھی خاصی کمی آئی ہے، مگر انتہائی چالاکی سے جھوٹ کا سہارا لے کر اس گراوٹ کو اضافہ میں تبدیل کرکے دکھادیا گیا، جس کا دل چاہے وہ اس کی تفصیل گوگل سے معلوم کر لے۔
ایک اور اہم جھوٹ انھوں نے ہندوستان کے گاؤں میں بجلی پہنچانے کے لیے بولا، ان کا بیان تھا ’’کہ اگر ۲۰۱۳ء کی بنیاد پر ہم بجلی گاؤں میں پہنچانے کا عمل کرتے تو کم از کم دو دہائی اور لگ جاتیں‘‘ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ مختلف رپورٹوں کے مطابق کانگریس کے دس سالہ دور اقتدار میں ہر سال کے اعتبار سے تقریبا ۱۲۰۳۳ گاؤں میں بجلی پہنچی جبکہ بھاجپا کے چار سالہ دور حکومت میں ہر سال کے اعتبار سے ۴۵۹۴ گاؤں میں بجلی پہنچائی گئی، لیکن لال قعلہ کی فصیل سے پورے ملک کو میڈیا نے یہ بے بنیاد دعویٰ حکومت کی اہم کامیابی کے طور پر دکھا دیا اور ایک تبصرہ تک نہ کیا، بھلا ہو ان متحرک و فعال لوگوں کا جو دجالی میڈیا کے بالمقابل سوشل میڈیا کو ذریعہ بناکر بے پیر کے جھوٹ کے بھی نقوش قدم تلاشنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
ایک اور اہم جھوٹ دیکھیے، فرماتے ہیں ’’کہ ۱۳ کروڑ مدرالون بہت بڑی بات ہوتی ہے، پہلی بار ملک میں اتنی بڑی تعداد میں مدرالون دیا گیا، اس میں بھی ۴ کروڑ نوجوان ہیں جو مدرالون کے ذریعہ پہلی بار روز گار ہوکر اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے ہیں‘‘، اب ذرا اس کی حقیقت سنیے اور سر پیٹیے، اس روز گار کی حقیقت یہ ہے کہ ۹۰ فیصد لوگ ایسے ہیں جن کو مدرالون کے نام پر ۵۰ ہزار روپیے سے کم کالون دیا گیا ہے، یہ بات خود حکومت نے انڈیا ٹوڈے کی ایک RTIکے جواب میں کہی ہے، اب ذرا سوچیے کیا پچاس ہزار روپیے میں وزیر اعظم کی تجویز کے مطابق پکوڑے بنانے اور بیچنے کا ٹھیلہ بھی تیار ہو سکتا ہے، یہ ہے اس لون اور روزگار کی حقیقت جس کو سن ملک کے عوام کا سینہ چوڑا ہوگیا ہوگا۔
ضرورت ہے کہ جذباتی نعروں اور باتوں سے بالا ہوکر ہم تکنیکی (data based) بحث کا ماحول بنائیں، اور کچھ ایسے لوگوں کو اس کام کے لیے لگائیں جو اس طرح کی تحقیقات سے عوام کو آگاہ کریں جیسا کہ کچھ لوگ اپنے طور پر انجام دے رہے ہیں، ضرورت ہے کہ دجالی میڈیا کا پردہ چاک کیا جائے اور قدم قدم پر اس کی پول کھولی جائے، ورنہ یاد رکھیے ’’جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے‘‘ اور دنیا کا موجودہ دجالی نظام اسی جھوٹ پر قائم ہے، اسی جھوٹ کی پرورش کرتا ہے اور اسی جھوٹ کے سہارے اس کا پورا کا روبار چلتا ہے، اس جھوٹ کا سہارا لینے میں سبھی شریک ہیں البتہ حصہ کم زیادہ ہو سکتا ہے، اگر ان پہلوؤں پر توجہ نہ دی گئی تو پھر بات بہت دور نکل جائے گی، ضرورت ہے کہ ضمنی مسائل جن میں حکومت الجھانا چاہتی ہے ان سے بچتے ہوئے سوالات کی ہر چہار جانب سے بوچھار کی جائے اور حقائق کو کھول کھول کر ہر زبان میں عوام کے سامنے بیان کیا جائے، وطن عزیز کا غلط رخ پر چل پڑا ہے، آئین ہند میں تبدیلی کی تیاری ہے، قانون میں نِت نئی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں، مسلم پرنسل لا میں مداخلت ہی نہیں بلکہ اس کو حکومت اور پارلیمنٹ سے طے کیے جانے کا عندیہ دیا جا چکا ہے، لاکھوں لوگوں کی شہریت پر سوالیہ نشان لگائے جا رہے ہیں، بڑی تعداد میں ووٹر لسٹ سے شہریوں کے نام غائب کر دیے گئے ہیں، کم از کم دو سے تین کروڑ مسلمان ووٹروں کے نام ووٹر لسٹ سے غائب ہیں، ضررت ہے کہ ان سب پہلووں پر توجہ دینے اور ایک مہم چھیڑنے کی وطن کو بچانے اور وطن کی معیشت کی حفاظت کرنے کے لیے یہ کام انتہائی ضروری ہوگیا ہے، اگر اب بھی ہوش نہ آیا تو نہ ملک کی سالمیت محفوظ رہے گی اور نہ تہذیبی یکجہتی اور نہ سیکولر دستور بند اور اقلیتی حقوق ضروری ہے کہ ذاتی اور جماعتی مفاد سے بالا ہوکر تکنیکی جنگ کا آغاز کیا جائے اور لوگوں کو حکومت کی دھاندلیوں اور قانونی دہشت گردی سے بڑے پیمانے پر واقف کرایا جائے۔