Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, August 20, 2018

سعادت مند بیٹا۔


(حضرت اسماعیلؑ کا بچپن)
             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
       عنایت اللہ خان
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
سیدنا ابراھیمؑ بیٹے کے لیے مدتوں دعا کرتے رہے ،رب ھب لی من الصالحین ( اے اللہ ! مجھے صالح اولاد عطا کر ) نوے سال کی عمر میں اللہ نے بیٹے سے نوازا ،جس کا نام انہوں نے اسماعیلؑ رکھا،اسماعیل ابھی دودھ پیتے بچے ہی تھے کہ اللہ نے  ابراھیمؑ کو حکم دیا کہ اپنی بیوی ہاجرہ اور پیارے بیٹے اسماعیلؑ کو مکہ کی وادی میں چھوڑ آ ؤ ،اللہ کا حکم پاکر ابراھیم ؑنے ایسا ہی کیا ،ننھے منے اسماعیلؑ اپنی پیاری امی جان کے ساتھ مکہ کی وادی میں رہنے لگے ،وہ بالکل سنشان جگہ تھی ،وہاں کوئی نہیں رہتا تھا،پتھریلی جگہ تھی،کانٹے دار جنگلات تھے ،ہمیشہ درندوں اور سانپ بچھو کا ڈر لگا رہتا تھا،کھانے پینے کا بہت زیادہ سامان بھی نہیں تھا،تھوڑا بہت کھجور اور پانی تھا جو چند دنوں میں ختم ہوگیا۔
ننھے اسماعیلؑ تو امی کا دودھ پیتے تھے ،جب ماں کچھ کھائے پیئے گی نہیں تو دودھ کیسے پلاے گی،اب ماں اور بیٹے دونوں بھوکے اور پیاسے رہنے لگے ،ماں بہت زیادہ صبر کرنے والی تھی اس نے صبر کیا،اسماعیلؑ تو بچے تھے بھوک سے رونے اور چلانے لگے ،اسماعیلؑ کو روتا دیکھ کر ماں کی ممتا بےچین ہوگئ،وادی کے دونوں جانب صفا اور مروہ نامی پہاڑیاں تھیں،ماں ہاجرہ پانی کی تلاش میں پہاڑوں پر چڑھ جاتی ،ساتھ ساتھ وہ اللہ سے دعائیں بھی کرتی ،اچانک اسماعیلؑ کے پاؤں کی رگڑ سے پانی نکلنے لگا،پانی دیکھ کر ماں ہاجرہ دوڑی دوڑی آئی ،صاف شفاف اور میٹھا پانی دیکھ کر بہت خوش ہوئیں،خود پیا اور بچے کو بھی پلایا،جان میں جان آ ئ ،اللہ کا بار بار شکر ادا کیا،اللہ کسی کی تلاش وجستجو،محنت و کوشش،اور دعاؤں کو ضائع نہیں کرتا،زم زم کا چشمہ بہت بابرکت ثابت ہوا،جھنڈ کے جھنڈ پرندے آ نے لگے ،اپنی پیاس بجھانے لگے ،اسماعیلؑ ان پرندوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ،ان سے دل بہلاتے ،ان کو پکڑنے کی کوشش کرتے،وہ ادھر ادھر اڑجاتے، پرندوں کو دیکھ کر جرہم نام کا ایک قبیلہ پانی کی تلاش میں آ یا ،پانی دیکھ کر وہ لوگ وہاں رہنے لگے،ننھے اسماعیلؑ قبیلہ جرہم کے بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگے،ان کے ساتھ کھیلتے کودتے ،ان کے جیسے بولنے کی کوشش کرتے،سیدنا ابراھیم علیہ السلام گاہے بگاہے فلسطین سے مکہ آیا جایا کرتے ،ننھے اسماعیلؑ کو خوب پیار کرتے ،دین کی باتیں بتاتے،اللہ کی بندگی کی طرف توجہ دلاتے،اسماعیلؑ بچپن ہی سے بہت نیک اور صالح تھے ،امانت دار اور سچے تھے ،اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اپنے والدین کے بہت ہی فرماں بردار تھے،ان خوبیوں کی وجہ سے لوگ ننھے اسماعیلؑ سے بہت پیار کرتے،ان پر بھروسہ کرتے ۔
دھیرے دھیرے اسماعیلؑ گیارہ بارہ سال کے ہوگئے،ایک دن ان کے والد بزرگوار آ ے ،ان کو اپنے پاس بلایا،فرمایا: بیٹے ! میں کئی دنوں سے ایک خواب دیکھ رہا ہوں ، ابو جان ! خواب میں کیا دیکھ رہے ہیں ؟ دیکھ رہا ہوں کہ میں تجھ کو راہ خدا میں ذبح کر رہا ہوں ،اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ سعادت مند بیٹے نے فوراً جواب دیا: اے ابو جان ! آ پ کو جو حکم دیا جارہا ہے کر گزریئے ،ان شاءاللہ آ پ ہم کو صابر پائیں گے،، فرماں بردار بیٹے نے مزید مشورہ دیتے ہوئے کہا : ابو جان ! جب آ پ مجھے ذبح کرنے لگیں تو آ نکھوں میں پٹی باندھ لیجئے گا،مبادا آ پ کو میری صورت دیکھ کر رحم نہ آ جائے ،ہاتھوں اور پیروں میں رسی باندھ دیجئے گا ،چھری تیز کرلیجئے گا تاکہ حکم الٰہی میں تاخیر نہ ہو ،پیارے بچو ! چھوٹے اسماعیلؑ کی یہ باتیں کتنی پیاری ہیں،کتنا بہترین انداز ہے ،اطاعت و فرمانبرداری کی کتنا اعلی مثال ہے، اتنی چھوٹی سی عمر میں اللہ کی راہ میں قربان ہونے کا جذبہ ،اللہ اکبر ،اللہ اکبر آ فرین صد آ فرین۔۔۔۔اللہ تعالٰی کو ہر ایک سے یہی جذبہ مطلوب ہے،زمین و آ سمان کا کتنا حسین منظر رہا ہوگا جب بوڑھا باپ اپنے ننھے منے بیٹے کو راہ خدا میں قربان کرنے کے لیے اور گیارہ سالہ کمسن بیٹا خوشی خوشی راہ خدا میں قربان کرانے کے لیے تیارہوگیا۔
اللہ تعالیٰ کو تو امتحان لینا تھا ،دونوں عظیم امتحان میں کامیاب ہو گئے ،اللہ نے جنت سے مینڈھا بھیجا ،مینڈھے کی قربانی ہوئی،اسماعیلؑ بچ گئے،ان کے بچپن کا یہ کردار اللہ نے قیامت تک کے لیے باقی رکھا  ،قران میں محفوظ کردیا،تاکہ سارے بچوں کے اندر اسماعیلؑ جیسا کردار پیدا ہو ،اللہ کے فرماں بردار بنیں ،والدین کے اطاعت گزار بنیں ۔کیا آ پ لوگ بھی اسماعیلؑ جیسا کردار اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے تیار ہیں؟