Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 21, 2018

کھٹمل کی رفاقت۔

از سراج ہاشمی (صدائے وقت)۔
  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچپن میں سنا تھا کہ کھٹمل نام کی ایک مخلوق پائی جاتی ہے، جو رات میں سونے والوں کے ہاتھ پاؤں چومنے نکلتی ہے، ہوش سنبھالنے کے بعد ان دوستوں سے پہلی بار ملاقات ہوئی، اپنی پہلی ہی ملاقات میں ان لوگوں نے یہ مفروضہ غلط ثابت کر دیاکہ وہ محض رات میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں،اس وقت دن کے ٹھیک بارہ بج رہے تھے، جب انہوں نے پہلے پہل میری دست بوسی فرمائی، پہلے تو مجھے سمجھ ہی نہیں آیا کہ سرخ سرخ ابھرے نقوش چھوڑجانے والا یہ بوسہ ہے کس کا؟ لیکن غور کرنے پر دوستوں کی بشارتیں یاد آ گئیں، جو وہ وقتا فوقتا جے این یو کے متعلق دیتے رہتے تھے، میں سمجھ گیا کہ یہ نئے رفقا کی میزبانی ہے،اس وقت میرا کھٹملوں کے اس بہادر گروہ سے سامنا ہوا تھا، جو رات میں چوری چھپے کام کرنے کے خلاف تھا، یعنی وہ غفلت کی حالت میں اپنے مرید کی خدمت نہیں کرنا چاہتا تھا اور وضعدار طبقہ تھا، بقول غالب:
لے تو لوں سوتے میں اسکے پاؤں کا بوسہ مگر
ایسی باتوں سے وہ ظالم بد گماں ہو جائیگا!
اب ان نئے دوستوں سے شناسائی ہو چکی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملاقاتیں بڑھتی گئیں،دن کی مصروفیتوں نے توانہیں خدمت کا زیادہ موقع فراہم نہیں کیا؛لیکن رات کا پورا وقت ان کرم فرماؤں نے اپنے نام کر لیا،دن بھر کا تھکا ہارا،ادھر بسترِ خواب پر گیا کہ تھوڑی ہی دیر میں خدمت گزار حاضر، کوئی پیروں کو چوم رہا ہے، کوئی ہاتھوں کو بوسہ دے رہا ہے،میں کبھی ہاتھوں کو چھڑا رہا ہوں، کبھی پیروں کو پٹخ رہا ہوں، مگر مرید ہیں کہ چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہے،میں غصہ کروں، جھلاؤں، کیا فرق پڑتا ہے! اور تو اور،اوپر سے طعنے بھی دے رہے ہیں کہ:
ہم ہیں مشتاق اور وہ بے زار
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے
(غالب)
ان خدمت گزاروں کی ایک ٹولی غیر مانوس ہے، جو بستر ہی پر نہایت عاجزی کے ساتھ طواف کرتی رہتی ہے؛ لیکن کچھ تو نہایت ہی شوخ، اڑیل اور منھ لگے نکلے، ان کی جرأت تو دیکھیے! کبھی ہاتھوں کو چومتے چومتے باغِ رخسار تک پہنچ جاتے ہیں اور کبھی سینے پر چڑھ کر اٹھکھیلیاں کرنے لگتے ہیں، کل تو گستاخی کی حد ہی ہو گئی ،جب چند نامعقول، پیروں کو بوسہ دیتے دیتے ممنوعہ سر حد کے پار نکل گئے اور مجھے اس گھس پیٹھ پر فوری کاروائی کرنی پڑی!
اس طرح پوری نیند خدمت کی نذر ہو جاتی ہے اور مجال ہے کہ کوئی رات ان خدمت گزاروں سے محروم رہ جائے۔
خفا ہو، گالیاں دو، چاہے آنے دو نہ آنے دو
میں بوسے لونگا سوتے میں ،مجھے لپکا ہے چوری کا
                ( قلق)
چند راتیں تو اسی طرح صرف بہاراں ہوئیں ؛لیکن پھر میں نے ان دوست نما دشمنوں سے بیزاری برتنا شروع کر دی، دوستوں نے ان سے بچاؤ کے مختلف حربے بتائے، کسی نے کہا ڈبے میں پکڑ کر بند کر دو، کسی نے کہا کمرے میں املتاس کے پھل لاکر رکھ دو؛ لیکن امید کسی طرح بر نہیں آئی، عاجز آکر ایک دن ان کی تمام پناہ گاہوں پر چھاپا مارا، گدے کی سلوٹوں،دیوار کی سوراخوں،کتاب کی جلدوں اور تھیلوں کی جیبوں تک کی تلاشی لی، پورے کمرے میں ان کو روکنے
والی ادویہ کا چھڑکاؤ کیا اور ایک ایک کو چن کر کمرہ بدر کیا، اتنی محنت کا فائدہ یہ ہوا کہ اس رات میں بالکل اطمینان سے سویا۔
صبح جب نہا دھو کر کلاس پہنچا ،تو دیکھتا ہوں وہی کھٹمل صاحبان بیگ کی شقوں سے باہر جھانک رہے ہیں، میں حیران؛ لیکن عزت کی پروا کرتے ہوئے کوئی کاروائی مناسب نہیں سمجھی، تھوڑی ہی دیر بعد دیکھتا ہوں کہ ایک دوسرے صاحب کی شرٹ پر بھی حضرت ٹہل رہے ہیں، اب مجھے کچھ ہمت ہوئی، میں نے انہیں مطلع کیا اور پھر اپنے بیگ میں جمع کھٹملوں کا علاج کرنا شروع کیا؛لیکن اف!قربان جائیے ان کی رفتار پر،ایک بھی کھٹمل ہاتھ نہیں لگا اور میدان صاف ہو گیا۔
ایسا اڑا کہ وہم و گماں سے گزر گیا
بادل ہوا سے پوچھ رہا تھا کدھر گیا
(سودا)
کھٹملوں کی اس یورش نے حیران و پریشان کر دیا، ایک دن بستر پر لیٹا ہوا تھا کہ اچانک انہی میں سے ایک پرانا مرید تکیے کے غلاف سے نکل کر میرا ہاتھ چومنے کو لپکا،میں نے فوراً دبوچ لیا، کم بخت نے خوشامد کرنی شروع کر دی…’’میں تو آپ کا دیدار کرنے آیا تھا، ارے آپ کتنے کمزور ہو گئے ہیں، آپ تو فکر مند لگ رہے ہیں‘‘…میں نے ایک نہ سنی اور پٹک کر اس کی گردن پر پیر رکھ دیا:
پہلے رگ رگ سے میری خون نچوڑا اس نے
اب یہ کہتا ہے کہ رنگت ہی مری پیلی ہے
     (مظفر وارثی)

دباؤ پڑتے ہی لہو کا دھارا پھوٹااور ایک جوشیلی آواز اسکے منھ سے بلند ہوئی…لال سلام…انقلاب زندہ باد…!!
ارے!یہ کیا،میں حیران رہ گیا!