Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, September 28, 2018

29 اکتوبر سے یومیہ بابری مسجد مقدمہ کی سنوائی۔

خصوصی نمائندہ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
سپریم کورٹ نے کہا۱۹۹۴کے فیصلے کا اراضی کے مالکانہ حقوق کے فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، مذہبی وسیاسی رہنمائوں کا فیصلے پر ملا جلا رد عمل
   ۔۔۔۔۔۔       ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. .  ۔۔۔۔۔۔
نئی دہلی۔۲۷؍ستمبر: سپریم کورٹ نے مسجد میں نماز پڑھنے کو اسلام کا لازمی حصہ ماننے سے جڑے معاملہ کو بڑی بینچ کو بھیجنے سے انکار کر دیا ہے۔ اسی کے ساتھ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ معاملہ اجودھیا معاملہ سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ اس فیصلہ کے آنے کے بعد اب بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعہ کی سماعت یکسوئی سے کی جا سکے گی۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ 29 اکتوبر سے مسلسل بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعہ پر سماعت شروع کی جائے گی۔عدالت نے ایودھیا معاملہ کو مذہبی ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ اس معاملہ کی سماعت جائیداد تنازعہ (زمین تنازعہ) کے طور پر ہو گی۔غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ میں مسلم فریقوں کی جانب سے دلیل دی گئی تھی کہ مسجد میں نماز کے معاملہ پر جلد فیصلہ لیا جائے۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ نے 20 جولائی کو فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ اسماعیل فاروقی کے معاملے میں 1994 میں سپریم کورٹ کی بینچ نے فیصلہ دیا تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنا اسلام کا لازمی جزو نہیں ہے۔ واضح ہوکہ نماز کے مسئلہ کو بابری مسجد آراضی کے تنازعہ کی عدالتی سماعت کے دوران اٹھایا گیا تھا۔ ’’مسجد میں نماز ادا کرنا مسلمانوں کا بنیادی حق ہے یا نہیں‘‘۔ سپریم کورٹ کے آج کے فیصلہ پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولاناسید محمد ولی رحمانی نے اپنے پریس اعلامیہ میں کہا ہے کہ ’’ بابری مسجد کے سلسلہ میں سپریم کورٹ میں جو مقدمہ چل رہا تھا اس کا فیصلہ آگیا مگر یہ فیصلہ بابری مسجد کی حقیقت کے معاملہ پر نہیںہے۔ حقیت کا مقدمہ جو سپریم کورٹ میں چل رہا ہے اس پرسماعت کی تاریخ ۲۹؍اکتوبر ۲۰۱۸ء متعین کی گئی ہے، ان خیالات کا اظہار آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے اپنے اخباری بیان میں فرمایا۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ چند دنوں میں نئے چیف جسٹس آجائیںگے اور وہ سپریم کورٹ کی بنچ کو متعین کریںگے اور اس بنچ کے سامنے پورے مقدمہ کی سماعت ہوگی۔ جہاںتک سپریم کورٹ کے آج کے فیصلہ کا تعلق ہے وہ پرپیچ ہے اور اس کی تفصیلات پر قانون دانوں سے مشورہ کیا جارہا ہے اس موضوع پر قانونی جائزہ کمیٹی کی میٹنگ بھی ہوگی اور فیصلہ کے مندرجات پر تفصیلی غور و فکر کیا جائیگا اور پھر کوئی فیصلہ کیا جائیگا‘‘۔وہیں  اس مسئلہ پر دیوبند کے متعدد علمائے کرام ومذہبی شخصیات نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عقیدۂ توحید ہے،انہوں نے کہاکہ مساجد اسلام کا اہم حصہ اور نماز دین کاستون ہے۔ بابر ی مسجد کے تعلق سے آئے فیصلہ پر مولانا سید ارشد مدنی نے کہاکہ عدالت فیصلہ سے ایک مرتبہ پھر واضح ہوگیاہے کہ یہ معاملہ آستھا کا نہیں بلکہ ملکیت ہے، انہوں نے کہاکہ ہم عدالت پر پورا اعتماد رکھتے ہیں اور ہمیں پوری امید ہے کہ عدالت اپنا فیصلہ شواہد اور ثبوتوںکی بنیاد پر سنائے گی،انہوںہے کہاکہ بلاشبہ ا س مقدمہ سے مسلمانوں اور ملک کے تمام انصاف پسند لوگوں کے جذبات وابستہ ہیںکیونکہ یہ تنہا ایک مسجد کامعاملہ نہیں بلکہ ملک کے سیکولر اورجمہوری کردار سے جڑا ہواہے  اور آئین وقانون کی بالادستی کا بھی ہے کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ کس طرح جبراً ایک مسجد کو شہید کر کے آئین وقانون کے رہنمااصولوں کی دھجیاں اڑادی گئی تھیں۔آر ایس ایس کے آل انڈیا ترجمان ارون کمار نے کہا ہے کہ آج عدالت عظمی نے رام جنم بھومی کے مقدمے میں تین افراد پر مشتمل بینچ کے ذریعے ۲۹ اکتوبر سے شنوائی کا فیصلہ لیا ہے اس کا اہم استقبال کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس کا منصفانہ فیصلہ ہوگا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری اور بابری مسجد ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی نے کہا ’یہ قطعی مسلمانوں کے لیے جھٹکا نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب ٹرائل شروع ہوگا، کورٹ نے صاف کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ذریعے کیاگیا تبصرہ ۱۹۹۴ کے اسماعیل فاروقی کیس کے تعلق سے ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ کورٹ کا اتنا کہنا کافی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور حیدر آباد سے ممبر پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے کہا ہے کہ یہ معاملہ اگر آئینی بینچ کو بھیجا جاتا تو زیادہ اچھا ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ سیکولر ازم کے دشمن اس فیصلے کا استعمال اپنے نظریاتی جیت کے طو رپر کریں گے۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ ’یہ ملک کے حق میں ہے کہ رام جنم بھومی سے متعلق ہنگامہ جلد ختم ہوجائے گا۔ ملک کی بڑی آبادی اس ہنگامے کا جلد سے جلد نپٹارہ چاہتے ہے ہم اپیل کرتے ہیں کہ اس معاملے میں جلد سے جلد فیصلہ آئے۔مرکزی وزیر اوما بھارتی نے کہاکہ یہ مذہبی ہنگامے کا معاملہ نہیں ہے، ایودھیا ہندوئوں کا اہم مذہبی مقام ہے کیوں کہ یہاں رام جنم بھومی ہے۔ مسلمانوں کا یہ مذہبی مقام نہیں ہے کیو ںکہ ان کا مذہبی مقام مکہ ہے۔ اب یہ زمین تنازعہ کا معاملہ ہے۔  بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے کہاکہ میں نے کہا تھا کہ آرٹیکل ۲۵ کے تحت یہ میرا حق ہے کہ بھگوان رام کی جنم بھومی پر میں ان کی پوجا کروں۔ سپریم کورٹ نے میرے لیے اس کا راستہ صاف کردیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ دیوالی سے قبل رام جنم بھومی پر عظیم شان رام مندر کا تعمیراتی کام شروع ہوجائے گا۔ وشو ہندو پریشد کے آلوک کمار نے کہا کہ میں بے حد مطمئن ہوں کہ رکاوٹ پیدا کرنے والوں کی ہار ہوئی ہے۔ رام جنم بھومی کی عرضداشت پر سماعت کے لیے اب راستہ صاف ہوگیا ہے۔ وہیں مولانا خالد رشید فرنگی محلی (رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) نے کہا کہ آج کے فیصلے کا اہم پہلو یہ ہے کہ کورٹ نے اس بات کو صاف کردیا ہے کہ اسماعیل فاروقی کیس کا ایودھیا معاملے پر کوئی اثر نہیں ہوگا جہاں تک مسجدنماز اور مذہبی پہلوئوں کی بات ہے تو یہ ایک آشکار حقیقت ہے کہ مسجد نماز کی ادائیگی کے لیے بنائی جاتی ہے اور وہ ہمارے مذہب کا لازمی حصہ ہے۔  وہیں جمعیۃ علماء ہند کے خازن مولانا حسیب صدیقی،دارالعلوم زکریا دیوبند کے مہتمم مفتی شریف خان قاسمی نے کہاکہ عدالت کے آج کے  فیصلہ سے ایک مرتبہ پھر واضح ہوگیاہے یہ معاملہ آستھا کانہیں بلکہ ملکیت اسلئے عدالت کافیصلہ ملکیت کی بنیاد پر ہوگا۔انہوںنے نماز پر سپریم کورٹ کے تبصرہ پر اپنے رد عمل کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذہب اسلام میں سب سے زیادہ نماز کی پابندی اور پنج وقتی نماز باجماعت ادا کرنے پر زور دیا گیا ہے جس کے لئے مساجد قیام کیا جاتاہے۔ انہوں نے کہا کہ نماز ہمیں انسانی مساوات اور جماعتی زندگی اپنانا سکھاتی ہے۔ نماز برائیوں سے بچنا سکھاتی ہے اور ایک دوسرے سے محبت کرنا سکھاتی ہے۔ جمعیۃ دعوت المسلمین کے صدر اور اما م سہارنپور قاری اسحاق گورا نے کہاکہ ہم سپریم کورٹ کا احترام کرتے ہیں لیکن مسجدوں میں نمازیں ادا کرنے کا مسئلہ قرآن وحدیث کا مسئلہ ہے اس طرح کے مسئلوں پر عدالتی فیصلے صادر نہیں کئے جاسکتے، جہاں تک بابری مسجد کے آراضی کے تنازعہ کا مسئلہ ہے اس کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، عدالت عظمیٰ کو اس مقدمہ میں آراضی کی حق ملکیت کا فیصلہ سنانا ہے جو ثبوتوں کی بنیاد پر سنایا جائے گا۔