Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, September 1, 2018

بچوں کی تعلیم و مشکلات۔

"بچوں کی تعلیم اور مشکلات "
والدین کے لئے ایک کار آمد تحریر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وپرو کے چیرمین عظیم پریم جی نے بڑی اچھی بات کہی تھی کہ ” بچہ مزدوری کی لعنت نے جہاں بچوں کا بچپن چھین لیا ہے وہیں کمسن بچوں کی اسکولوں میں شرکت اور ان پر تعلیم اور کتابوں کے بستوں کے بوجھ نے ان کے بچپن پر ڈاکہ ڈالا ہے“ ان معصوم بچوں کے کندھوں پر بڑے بڑے بستے صبح صبح اسکول کے کیبوں بسوں اور چھوٹی چھوٹی ٹرالیوں اور رکشوں میں بھرکر گانے اور میوزک سناتے ہوے گھروں سے نکال کر دور درازعلاقوں میں اسطرح  لے جاتے ہیں جیسے ان کو کڈنیپ کرکے لے جایا جا رہا ہو اور اس پر ستم یہ کہ والدین سے ان معصوموں کو صرفD CAB پڑھانے کے لیے فیسوں کی خطیر رقم ۔الامان الحفیظ  مگر اس کو کویی غیر اخلاقی تصور نہیں کرتا ۔کرےگا بھی کیسے موٹی موٹی رقم جو بغیر محنت کے أرہی ہے؟ ایک اور افسوک ناک رویہ اسکولوں  میں جس میں سرکار بھی شریک ہے یہ بھی ہوتا ہےکہ۔بچوں کا ایڈمیشن خواہ کسی مہینہ میں  ہو مگر فیس پورے سال کی اپریل سے ہی جوڑ کر لیں گے جبکہ بچوں کی فیس چھ ماہ کی دوسرے اسکولوں جہاں بچہ پہلےسے تعلیم حاصل کر رہاہے وہاں بھی جمع ہوچکی ہے أخر اسکا کیا جواز ہے ؟ کیا اسکول والے یا گورنمنٹ أج اپاینٹ ہونے والے ٹیچر کو چھ ماہ پیچھے سے تنخواہ جوڑ کر دیتے ہیں ؟ جب نہیں تو اس کا کیا جواز ہےٗ یہ گورکھ دھندہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اور اسطرح بچوں تعلیم کے نام پر پیرنٹس کا گلہ گھونٹنا نہیں تو اور کیا ہے ۔کیا اسی کو تعلیم کے فروغ کا جذبہ کہا جاےگا؟۔سوشل میڈیا کے ذریعہ اس بات کو حکومت تک پہنچانا چاہتا ہوںٗ اس بارے میں وزارت تعلیم معقول وضاحت پیش کرےٗ ہزاروں پیرنٹس کے دماغ میں یہ سوال گردش کرتا ہے ٗاور بطور خاص کیجریوال اور جناب سسوڈیا جی سے توجہ کی درخواست کرتاہوں چونکہ وہ تعلیم پر توجہ کا رجحان رکھتے ہیں ۔ایک بات اور بھی کہنا ضروری سمجھتا ہوں کورٹ نے یہ اعلان کیا تھا کہ اسکول میں چھٹ کے ایام کی فیس بچوں سے نہیں جاےگی مگر کسی بھی اسکول والے اس پر عمل نہیں کیا سب نے فیس وصولی۔أخر یہ کیسا فیصلہ تھا۔نی نسل کی أبیاری اور تعلیم کی فکر نے یہ چند باتیں ذہن میں پیدا کردین جنہیں میں نے نذر قاریین کردیا ہے اس امید پرکہ اہل  فکر توجہ دیں گے ”شاید کہ اترجاے ترے دل میں مری بات“ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمدنادرالقاسمی