Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, September 29, 2018

جنسی بے راہ روی، عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اور داعیان اسلام کی ذمے داریاں۔

تحریر/ ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔چیف ایڈیٹر نیوز پورٹل صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ہم جنس پرستی قانوناً جائز؟ دفعہ 394 کا خاتمہ؟ ازدواجی زندگی خطرے میں؟۔شادی شدہ مردوزن کے لئیے جنسی آزادی۔؟جنسی بے راہ روی پر شوہر و بیوی سے کوئی سوال نہیں ؟بیوی شوہر کی ملکیت نہیں۔؟
اب ایک مرد پورے محلے کا شوہر بن سکتا ہے اور ایک عورت پورے محلے کی بیوی۔اب ہندوستان میں دو مرد آپس میں ، دو عورتیں آپس میں، ایک کا شوہر دوسرے کی بیوی۔کسی کی بیوی کسی کا شوہر۔کسی کی بیٹی ، بہن کسی کے ساتھ جنسی تعلقات بنا سکتے ہیں۔لیو اینڈ ریلیشن کو تو پہلے سے قانونی حیثیت حاصل ہے۔یعنی اب ہندوستان میں ہر طرح کی جنسی آزادی ہے۔پتہ نہیں کیوں ابھی تک طوائفوں کو سرٹیفکٹ نہیں دیا گیا ۔اب تو جنسی معاملات وجسمانی خرید و فروخت کو ایک انڈسٹری کا درجہ دیکر قانونی جواز فراہم کر دینا چاہیے شہروں کی ریڈ لائت ایریا اور کوٹھوں کو لائسنس دے دینا چاہیئے اور جب انڈسٹری کا درجہ ملے گا تو ٹیکس بھی لگے گا اور سرکاری خزانے کی آمدنی بڑھے گی۔
کوئی مہذب سماج اس طرح کی  جنسی بے راہ روی کو اختیار نہیں کر سکتا۔ہندوستان میں دو بڑے فرقے و عقیدے کے لوگ ہیں ہندو و مسلمان۔دونوں کے یہاں خاندانی تصور ہے ۔شادی کو پاکیزہ رشتہ مانا جاتا ہے اور شادی سے پہلے جنسی تعلقات کو پاپ اور گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔لیکن جب جنسی آزادی کو قانونی حیثیت حاصل ہوگئی ہے تو کچھ سالوں بعد جنسی بے راہ روی کے واقعات میں اضافے کا امکان ہے۔سو سائٹی کا تانا بانا بکھرنے کا ڈر ہے۔خاندانی فکر پر منفی اثر پڑے گا۔
ہر منفی بات میں کہیں نہ کہیں ایک مثبت پہلو پوشیدہ ہوتا ہے۔اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو ہر طرح کی جنسی بے راہ روی کی مذمت کرتے ہوئے تعزیری سزا بھی تجویز کرتا ہے اور ساتھ ہی آخرت و میدان حشر و سوال وجواب کا معقول و مناسب تصور/ فلسفہ بھی رکھتا ہے۔راہ ہدایت کے لئے قرآنی تعلیمات بھی ہیں ۔یہ تصور ہندو مذہب میں نہیں ہے۔ہندو بھلے ہی کروڑوں دیوی دیوتاوں کی عبادت کرتا ہے مگر ان کے پاس کوئی ایسا فارمولہ نہیں ہے جس کو اپنا کر وہ اس لعنت سے بچ سکے حالانکہ ہندو سماج بھی سماج، سو سائٹی اور خاندانی تانے بانے میں جکڑا ہوا ہے۔وہ بھی نہیں چاہتا کہ ہندوستان میں ایسی جنسی آزادی حاصل ہو جس سے اسکی عزت و آبرو خطرے میں پڑے۔اسلام اس بے راہ روی سے نپٹنے میں پوری طرح اہل ہے ۔اسلام میں والدین۔زن و شوہر ۔بھائی بہن سب کے حقوق متعین ہیں ۔اسلام کے نزدیک اسکی اپنی بیوی اسکی ملکیت ہے۔لیکن خود کے استعمال کے لئے۔اسلام اجازت نہیں دیتا کہ کسی کی بیوی شوہر کی اجازت سے یا شوہر بیوی کو فورس کرکے کسی غیر مرد کے پاس بھیجے۔
اب ان حالات میں داعیان اسلام کے لئے ایک بہت ہی مثبت پہلو ہے کہ اسلامی عائلی نظام کو غیروں کے سامنے مظبوط دلیل کے ساتھ رکھے ۔اس کو یہ ثابت کرنا پڑےگا کہ اسلامی تعلیمات و قوانین ہی ہندوستانی سماج کو اس جنسی بے راہ روی سے نجات دلا سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا یہ ایک بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے موجودہ حکومت ہند و عدالت عظمیٰ کے توسط سے داعیان اسلام کو ایک بہترین موقع فراہم کیا ہے۔ہمیں ان قوانین کو لیکر بہت زیادہ بحث و مباحثہ سے گریز کرتے ہوئے مثبت سوچ کے ساتھ اسلامی تعلیمات کو اپنے ہم وطن بھائیوں  کے ساتھ شیئر کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام  کی دعوت دینیے کی ، اسلام کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں دعوتی ادارے لٹریچر ۔کتابچوں کے ذریعہ اسلامی تعلیمات کو غیروں کے پاس تک پہنچا سکتے ہیں۔ انشاء اللہ مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔