Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 23, 2018

الیکشن سسٹم محتاج اصلاح ہے ۔مولانا طاہر مدنی۔

از  مولانا طاھر مدنی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہمارے ملک میں اکثریت کی حکومت ہے، جمہوریت کا مطلب ہوتا ہے کہ جس کے حق میں کم از کم 51 فیصد رائے دہندگان ہوں، اس کی حکومت بنے. لیکن کیا ایسا ہے؟ ہرگز نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے، ہمارے ملک میں ایسا نظام انتخابات رائج ہے، جس کے نتیجے میں میں ایسی پارٹی برسر اقتدار اجاتی ہے، جس کے حق میں اکثریت نہیں ہوتی. مثال کے طور پر جنرل الیکشن 2014 میں بی جے پی کو 31 فیصد ووٹ ملا تھا، لیکن وہ اکٹریت میں آگئی اور نصف سے زیادہ اس کے ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوگئے، ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ مخالف ووٹ بری طرح بکھر گئے. اس طرح وہ پارٹی حکمران بن گئی جس کے حق میں محض 31 فیصد ووٹر ہیں اور 69 فیصد اس کے خلاف ہیں. یہ اقلیت کی حکومت ہے یا اکثریت کی؟؟؟؟؟؟؟
ایسا کیوں ہوتا ہے، یہ ہمارے الیکٹورل سسٹم کی خامی ہے. اس کی اصلاح کیسے ہوسکتی ہے؟ ایک طریقہ متناسب طریقہ نمائندگی کا ہے. اس میں امیدوار کی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ سیاسی پارٹیوں کی اہمیت ہوتی ہے. جس سیاسی پارٹی کو جتنے فیصد ووٹ ملے گا، اسی کے لحاظ سے اسے سیٹیں الاٹ ہوں گی. اگر 100 نشستوں کا ایوان ہے تو جس پارٹی کو 10 فیصد ووٹ ملے گا، اسے 10 سیٹ اور جسے 15 فیصد ملے گا، اسے 15 سیٹ ملے گی. اس طرح اگر کسی پارٹی کو اکثریت مل گئی تو اس کی سرکار بنے گی ورنہ ملی جلی سرکار بنانی ہوگی. اس سسٹم میں واقعتاً اکثریت کی رائے کا احترام ہوگا اور ایک نمائندہ حکومت کی تشکیل ہوگی، موجودہ سسٹم تو انتہائی ناقص ہے اور عوامی خواہشات کا آئینہ دار نہیں ہے.
مجوزہ متناسب طریقہ نمائندگی بھی صرف ایک بہتر متبادل ہے، آئیڈیل نہیں ہے. آئیڈیل تو یہ ہے کہ انسان اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرلے اور اس کی نازل کردہ شریعت کو خلوص کے ساتھ نافذ کرنے کے لیے تیار ہوجائے، زندگی کے تمام شعبوں میں خدا کی بندگی اختیار کرلے اور خدا کے مقابلے میں اپنی خود مختاری سے دست بردار ہوجائے؛ اتبعوا ما أنزل الیکم من ربكم؛ کی عملی تفسیر بن جائے اور اللہ کے قانون کی بالادستی مان لے. جب ایسا ہوگا تو آسمان سے رحمتوں کی بارش ہوگی اور زمین اپنے خزانے اگل دے گی، خوش حالی کا دور دورہ ہوگا اور انسانی معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ ہوگا؛ و لو ان اھل القرى آمنوا و اتقوا لفتحنا علیھم برکات من السماء والأرض.....، سورہ اعراف
اگر بستیوں میں رہنے والے، ایمان و تقوی کی روش اپنا لیں تو زمین و آسمان کی برکتیں ہم ان پر نازل کردیں.
   افسوس کہ جس امت کے پاس اللہ کا یہ دین ہے، وہ خود سرابوں کے پیچھے بھاگ رہی ہے، جس کے پاس نسخہ کیمیا موجود ہے وہ نقلی طبیبوں کے آستانوں کا چکر لگا رہی ہے، عصائے موسی بغل میں اور جادو گروں کی جادو گری سے ڈر رہی ہے، ضرورت ہے کسی بیدار مغز قیادت کی......
نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کیلئے
۔
صدائے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔