Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, September 20, 2018

جو ذرہ یہاں سے اٹھتا ہے وہ نیر اعظم ہتا ہے۔

اعظم گڑھ۔۔۔۔علامہ شبلی کی شخصیت پر ایک مختصر و جامع تحریر۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
تحریر/محمد بلال اعظمی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
   علامہ شبلی ایک ایسی شخصیت، ایک ایسا نام ہےجن کی فکروں اور کارناموں پر اگر کچھ بیان کیا جائے، ان کے اعلیٰ افکار کی اگر گرہ کشائی کی جائے تو ایک ایک عنوان اور موضوع پر کئی کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں، آپ ایسی گراں قدر خدمات کے مالک تھے کہ اگر ان خدمات کو لفظوں میں بیان کیا جائے تو ان کی شخصیت کے سامنے الفاظ کا قد بونا اور چھوٹا نظر آتا ہے، جس وسعتِ قلبی، خوش اسلوبی، بصیرت اور فہم و فراست کے ساتھ آپ نے اپنی خدمات انجام دی ہیں وہ یقیناً آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہیں

   علامہ شبلی رحمہ اللہ علیہ کو جس طرح سے لوگ سیرت نگار، بہترین ادیب کی حیثیت سے جانتے ہیں اسی طرح آپ ایک اچھے مفکر کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں، آپ نے مختلف طریقوں سے مسلمانِ ہند کو بیدار کرنے کی کوشش کی، نصابِ تعلیم کی اصلاح کے لیے، مسلمانوں کے اندر بیداری پیدا کرنے کے لیے، شعر و شاعری و ادب کو صحیح سمت دینے کے لیے، مختلف میدانوں میں اللہ تعالیٰ نے جو آپ سے گراں قدر کام لیا ہے اس کی مثال خال خال نظر آتی ہے

تعلیم کے سلسلے میں آپ نے قرآن کی اس آیت "وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومه (الآیة)" ( اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے پاس اس کی زبان میں گفتگو کرنے والا رسول بھیجا) کی روشنی میں یہ بات کہی کہ *"آج ضرورت ہے اس بات کی کہ ہمارے ملک و معاشرے میں ایسے علماء سامنے آئیں جو عصرِ حاضر کی زبان سے مکمل واقفیت رکھتے ہوں، اور لسان القوم میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اسلام کی روح، اور اس کی معنویت، اس کے احکام کے مقاصد اور مصلحتوں کو سمجھائیں"*

    ہندوستان میں سب سے پہلے علماء کی فہرست میں علامہ شبلی ہی وہ شخص ہیں جنھوں نے یہ کوشش کی اور آواز اٹھائی کہ *"انگریزی زبان میں ایک ایسا پلیٹ فارم تیار کیا جائے، جو لسان القوم میں ملک اور دنیا سے مخاطب ہو"* کیوں کہ انگریزی زبان ہی وہ زبان ہے جس سے پورے ملک کو مخاطب کیا جا سکتا ہے

حال ہی میں ترکی میں آپ کی شخصیت پر ایک فکری سیمینار ہوا،جس میں شبلی کے افکار کا مطالعہ خاص طور سے موجودہ حالات کے پسِ منظر میں بدلتے ہوئے ترکی میں ان کے افکار سے استفادہ کیا جا رہا ہے، اس کی معنویت کو سمجھا جا رہا ہے، اور علامہ کی روشن اور انقلابی فکروں کو محسوس کیا جا رہا ہے،مگر افسوس! کہ آج سو سال کے بعد کہیں علامہ شبلی کی برسی تو منا لی جاتی ہے، جیسا کہ ۲۰۱۴ میں منائی گئی، لیکن شبلی کے افکار کو سمجھنے کا حق ادا کرنے کی دور کی بات ہم ان کی کتابیں بھی نہیں پڑھتے، اور حال یہ ہے کہ ہم ابھی تک اس خیال میں کھوئے ہوئے ہیں کہ شبلی کس صف میں تھے؟ علماء کے صف میں تھے،پروفیسر تھے، یا مؤرخ تھے، نقاد تھے،یا پھر ادیب تھے،

      آپ جب دنیا کے سامنے آئے، تو آپ نے ملت کو جگایا، شام و ترکی کا سفر کیا، اور یہ وہ دور تھا جب کتابیں بآسانی دستیاب نہیں ہوا کرتی تھیں، آپ نے ان علماء کو جو گوشہ نشیں تھے توجہ دلائی اور کہا کہ آپ اپنی خانقاہوں سے نکلیں، دنیا کا جائزہ لیں، اپنے اندر وسعت و توانائی، اپنی فکروں میں عمق پیدا کریں، اور اپنی باتوں کو دلائل سے مزین و آراستہ کریں،

    کہا جاتا ہے کہ اردو میں پہلی مرتبہ آپ نے اردو حوالوں کو رواج دیا کہ حوالے کیسے دئیے جائیں، اپنی باتوں کو دلائل کی آہنی دیوار سے کیسے مزین و آراستہ کیا جائے، کبھی آپ نے "الفاروق" جیسی کتاب لکھی، کبھی "سیرت النعمان" امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ پر لکھی، آپ نے "الغزالی" لکھی، ہر اس شخصیت کے بارے میں لکھا جنھوں نے اپنے زمانے پر یا مابعد کے زمانے پر صدیوں تک گہرے اثرات ڈالے، ایسے لوگوں کو اپنی نگاہ میں رکھنا، ان کے بارے میں آنے والی نسلوں کو بتانا، ان کو پرکھنا، ان کو جاننا یہ علامہ کا کارنامہ تھا، جب آپ کے قلم سے ان اعلیٰ صفات ہستیوں کے کارنامے سامنے آئے، تو ایک نئی شخصیت کے روپ میں دنیا نے انھیں دیکھا، ورنہ لوگ محض ایک سوانح کی حیثیت سے ان کی شخصیات کا مطالعہ کیا کرتے تھے،

مہدی افادی نے طنز کے طور پر ایک جملہ لکھا ہے؛ *"شبلی تاریخ کے بغیر ایک لقمہ نہیں توڑ سکتے، وہ بغیر تاریخ کے نہیں چلتے، بلکہ تاریخ سے جو سبق ملتا ہے وہ اسے اخذ کرتے ہیں"* لوگوں کو ماضی سے جوڑ کر انھیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہیں ان کا مشہور قول ہے کہ *" قوم اسی وقت ترقی کر سکتی ہے جب وہ اپنے ماضی کی طرف اور عہدِ صحابہ تک بڑھتی جائے گی"*

اس کے علاوہ علامہ شبلی کی بہت ساری خصوصیات ہیں جن کو اس چھوٹی سی تحریر کے احاطے میں لانا دشوار ہیں.....

آپ اقبال سہیل کے اس شعر کے مکمل اور حقیقی مصداق ہیں.....

اس خطہ اعظم گڑھ پہ مگر فیضان تجلی ہے یکسر
جو ذرہ یہاں سے اٹھتا ہے وہ نیرِ اعظم ہوتا ہے

   آج ضرورت ہے اس بات کی کہ ان کی شخصیت کو پڑھا جائے، ان کی فکروں کو سمجھا جائے...

..............صدائے وقت۔.............