Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 10, 2018

ایران اور یماری حکمت عملی۔

ڈاکٹر عمیر انس دہلی کی تحریر۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
صدائے وقت بشکریہ ابو نافع اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
ایران کے سنی دشمن رویے کو تبدیل کرنے کے لیے مسلمانان ہند و پاکستان کی طرف سے پانچ ممکنہ اقدامات
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ملک شام میں ایران کی جارحانہ پالیسیز کو مد نظر رکھتے ہوئے ایران کے سلسلے میں ملت اسلامیہ کو اپنا نقطہ نظر واضح کرنا۔چاہیے تاکہ ایران صحیح معنوں میں ان اسلامی روایات کا عملی مظاہرہ کرنے پر مجبور ہو جسکا وہ ساری دنیا میں دکھاوا تو کرتا ہے، عمل نہیں، نیز تاکہ شام کی مظلوم عوام کی مظلومیت کا کچھ حصہ ایران پر عالمی دباؤ ڈال کر کم کیا جا سکے، درج بالا موقف اختیار کرنے سے اس بات کا امکان ہے کہ ایران اپنے موقف میں تھوڑی لچک پیدا کرے اور شامی مسلمانوں کے حق میں انسانیت کا مظاہرہ کر سکے!

۱. ۔۔مسلمانان عالم ایران کو ایک اسلامی ریپبلک ملک یا اسلامی ملک تسلیم کرنا بند کر دیں، ایران کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ اب اسی طرح سے کیا جائے جیسے مصر امارات، سعودی عربیہ، ازبکستان یا دیگر غیر جمہوری مسلم ممالک کے بارے میں کرتے ہیں،  ایران کو اسلامی انقلاب کا سنی ممالک کے خلاف ایک سیاسی اور مذہبی حربے کے طور پر استعمال نہ ہونے دیا جائے، ایران اپنے اسلامی انقلاب کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرتا رہا ہے جسے دنیا بھر کے مسلمان بڑی ہے تک متاثر ہوئے تھے، لیکن خمینی نے ۱۹۸۲ میں حما میں حافظ الاسد کے ذریعے ۲۰۰۰۰ سنی مسلمانوں کے قتل عام کی تائید سے ثابت کر دیا تھا کہ انکے نزدیک اسلام کا مطلب ایرانی مفادات ہیں، یہ ڈر صحیح ثابت ہوا جب ایران نے صدام حسین کے خلاف امریکی جنگ میں پردے کے پیچھے خوب تعاون کیا اور عراق میں اپنی فوجی موجودگی پھیلا دی، افغانستان میں ایران امریکی تعاون، اور دوسرے ممالک میں عام مسلم مفادات کے خلاف پالیسیاں اختیار کی ہیں جس سے ثابت ہوا  ہے کہ ایران کے نزدیک مشترکہ اسلامی مفادات کے مقابلے اپنے مذہبی اور ملکی مفادات زیادہ عزیز ہیں خواہ اسکی قیمت دوسرے اسلامی مذاھب خصوصا اہل سنت کے سخت جانی مالی نقصان سے کیوں نہ ادا کرنی پڑے، لہٰذا ایران اور اسکے حکمرانوں سے ماضی کی اسلامی اخوت کی بنیاد پر دی جانے والی خصوصی محبتیں اور رعایتیں ختم کرنا چاہیے اور اسے اب صرف ایک عام مسلم ملک کی طرح دیکھنا چاہیے،

۲. ۔۔ ایران حکومت کی جانب سے ہونے والی سبھی مذہبی تقریبات کا بالکلیہ بائیکاٹ کیا جائے، چاہئے وہ سفارت خانے کے افطار ہوں یا مجلسیں، صرف ایرانی عوام کے ذریعے کی جانے والی سرگرمیوں میں اس شرط کے ساتھ شرکت کی جائے کہ اسکا مقصد ایرانی حکومت کا پروپگنڈہ نہ ہو! ایرانی حکومت کی طرف سے اسلامی اتحاد، قضیہ فلسطین وغیرہ سے متعلق سرگرمیاں ایک حد تک ایران کے جرائم کی پردہ پوشی کا ذریعہ بن چکی ہے، اس بہانے معتدد مسلم تنظیموں کے آزادانہ اور منصفانہ نقطہ نظر کو ایرانی حکومت کے مطابق بدلنے کے لیے لالچ اور دباؤ کی تدبیر کی جارہی ہے، ایرانی سفیروں کی مسلم تنظیموں سے ملاقات پر عوامی بیان ضرور جاری کیے جائیں جس میں یہ تذکرہ ہو کہ انہیں شامی اور عراقی عوام کا درد پہنچایا گیا کہ نہیں،

۳.  . جب تک ایرانی حکومت کی طرف سے شام کی جنگ کو ختم کرنے اور  شام اور عراق کے سنی مظلومین کی دادرسی اور انصاف کا واضح اور شامی عراقی عوام کو قابل قبول منصوبہ پیش نہ کر دیا جائے اس وقت تک ایرانی حکومت کی سخت تنقید کی جاتی رہے! مزید یہ کہ ایرانی حکومت پر یہ دباؤ بنایا جائے کہ وہ مسلم ملت کے سامنے شام اور عراق اور یمن میں اپنی موجودہ موجودگی خاص طور پر ایرانی تنظمیوں، لڑاکوں، ہتھیار بند گروہوں کی صحیح موجودگی اور انکی اصل کارکردگی کے بارے میں اطلاع دے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ ایران اور ایران حمایت یافتہ عناصر کی موجودگی امن اور اتحاد کے لیے فائدے مند ثابت ہو رہی ہے یا نقصان ده جیسا کہ وہاں کی سنی عوام کی شکایت ہے، بلکہ ایران کو حزب اللہ کی سبھی جنگوں میں شرکت کی صحیح معلومات دی جائے کہ وہ کس مقام پر کس سے لڑ رہے ہیں اور لڑائی کے بعد وہاں کی سنی آبادیوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں، جن جن مقامات پر ایران، حزب اللہ نے فتوحات حاصل کی ہیں ان مقامات پر سنی آبادیوں کی موجودہ حالات پر ایک سٹیٹس رپورٹ جاری کرنے سے اعتماد بحالی میں مدد مل سکتی ہے،

۴.۔۔ شیعہ سنی اتحاد کے بہانے سنی عوام کے ایرانی حکومت کا وفادار بنانے کی کوشش نہ ہو! ایران کی تنقید کا مطلب شعیہ دشمنی نا مانا جائے، ویسے ہی جیسے اسرائیل کی مخالفت سے یہودیوں سے نفرت ثابت نہیں ہوتی، یا سعودی عربیہ کی مخالفت سے سنی دشمنی ثابت نہیں ہوتی، علامہ سیستانی کی طرف سے منسوب اتحاد کے فتوے شیعہ حضرات کی طرف سے نقل کیے جاتے ہیں، مناسب ہےکہ علامہ سیستانی سے عراق میں سنی مسلمانوں کے تحفظ اور عراق میں شیعہ سنی اتحاد کی حقیقی کوششوں کے بارے میں معلومات پیش کی جائے، ہندوستان میں جو شیعہ حضرات ایران اور عراق کا سفر وہاں کی حکومتوں کی دعوت پر کر رہے ہیں وہ بھی وہاں سنی مسلمانوں کے حالات کی قابل تصدیق اطلاعات پیش کریں، شیعہ سنی اتحاد کا ایسا کوئی مظاہرہ جس میں شیعہ اور سنی حضرات ایک دوسرے کی جان مال عزت و آبرو کے تحفظ پر مشترکہ فکر اور مشترکہ موقف اختیار نہ کر سکیں تو ایسے اتحاد کا استعمال محض سیاسی منافقت ہے جسکا استعمال ایرانی حکومت اور انکے طرفداران اپنے پروپگنڈہ کے لیے کر رہے ہیں،

۵..   کسی بھی شیعہ پروگرام جس میں بشار الاسد، قاسم سلیمانی یا خامنئى کی تصویر آویزاں ہو یا اسمیں انکے بارے میں  ایک طرف طور پر صرف تعریفی گفتگو انکا موضوع ہے،  انکا مکمل bocycot کیا جائے، لکھنؤ اور جن شیعہ مقامات پر بشار الاسد کی تصویریں عوامی جگہوں پر لگائی جا رہی ہیں یا جن تقریروں میں شام اور عراق میں سنی مسلمانوں کے قتل عام کو سانحہ کربلا کا بدلہ قرار دیا جارہا ہے ایسی تمام تقریروں، تحریروں، تصویروں اور بیانات کی تائید کرنے والے کسی بھی ایرانی یہ شیعہ پروگرام اور شخصیات سے دوری بنائے رکھی جائے، مزید یہ کہ سنی اور شیعہ حضرات عالم اسلام کے تمام اہم مسائل پر ایک مشترکہ نقطہ نظر پیدا کرنے کی کوشش کریں جسکو عوام بھی سمجھے، یہ ممکن نہیں ہےکہ بند کمروں میں ایک دوسرے کے خلاف سازشیں ہوں اور باہر خوبصورت تقریریں، یمن، شام، عراق، افغانستان، پاکستان اور لبنان جہاں جہاں شیعہ سنی آبادیاں تاریخی طور پر آباد ہیں وہاں کے سلسلےمیں سبھی مسلمانوں کو ممکنہ حد تک بنیادی انسانی اور پیغمبرانہ اصولوں کے مطابق موقف اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، ورنہ تیرا یمن اور میرا شام کی تقسیم بنی رہے گی،
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
نوٹ:- تحریر کردہ کا اپنا تجزیہ و آرا ہے۔ ادارہ صدائے وقت کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
صدائے وقت۔
۱.