Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, September 18, 2018

اسمارٹ فون اس دور کا سب سے بڑا فتنہ

اسمارٹ فون؛ اس دورکاسب سے بڑافتنہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر/مولانا ندیم الواجدی۔

حال ہی میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے،یورپ کے کسی ملک کی ویڈیو ہے، اس میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو دکھلایا گیاہے، ان کے ہاتھوں میں تختیاں ہیں جن پر کچھ اس طرح کے نعرے لکھے ہوئے ہیں ’’ہمیں وقت دو‘‘ ’’ہمیں آپ کا پیار چاہئے‘‘ ’’موبائل فون سے ہم نفرت کرتے ہیں‘‘ بچوں کے اس مظاہرے کی قیادت ایک سات سالہ بچہ کررہا تھا، ان بچوں کو اپنے والدین سے شکایت ہے کہ وہ ان پرتوجہ دینے کے بجائے اپنا تمام وقت موبائل فون کے ساتھ گزارتے ہیں، یہ گھر گھر کی کہانی ہے، موبائل کے حد سے زیادہ استعمال نے  ہمیں دور دراز کے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ تو مربوط کیا ہے لیکن قریبی رشتوں سے دور بھی کردیاہے، کتنے ہی لوگ ہیں جو نا دیدہ لوگوں کے ساتھ دوستی اورتعلق میں اتنے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انھیں احساس بھی نہیں ہوتاکہ قریب ترین رشتوں کی ڈور ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے، یہ تو وہ بچے تھے جنھیں احساس ہوا کہ اس عمر میں وہ والدین کی توجہات کے زیادہ مستحق ہیں، ورنہ بہت سے بچے تو اس کمی کو اسمارٹ فون کے استعمال سے پوری کررہے ہیں، والدین خود بھی موبائل فون پر دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے اپنے نو عمر بلکہ شیر خوار بچوں تک کو موبائل فون پکڑادیتے ہیں، انھیں یہ خیال تک نہیں آتا کہ اس طرح بچوں کی نشوونما متأثر ہوسکتی ہے، ان کی آنکھیں خراب ہوسکتی ہیں، ان کی تعلیم پر بھی اس کا اثر پڑسکتا ہے سب سے زیادہ یہ کہ وہ ان سے دوربھی ہوسکتے ہیں، مگر موبائل فون کے نشے میں چور والدین کو ان سب چیزوں کی کوئی پرواہ نہیں ۔
ہمارے دور کی سائنسی ایجادات میں موبائل فون ایک اہم ایجاد ہے، اس وقت دنیا میں اگر کسی ایجاد سے زیادہ فائدہ اٹھایا جارہا ہے تو وہ موبائل فون ہے، دنیا کی پانچ ارب کی آبادی میں سے نصف یقینی طورپر اس کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہے، خود ہمارے ملک میں چالیس پچاس کڑوڑ افراد موبائل سے جڑے ہوئے ہیں، اس ایجاد نے دوریاں ختم کردی ہیں، فاصلے مٹادئے ہیں، اور لوگوں کو ایک دوسرے سے انتہائی قریب کردیا ہے، آدمی دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو اس فون کے ذریعے وہ ہر وقت اپنوں سے باخبر رہتا ہے اور انھیں بھی با خبر رکھتا ہے، دنیا بھرکی معلومات انٹرنیٹ کے ذریعہ اس کے موبائل فون پر سیلاب کی طرح آتی رہتی ہیں، کہیں بھی کوئی اہم یا غیر اہم واقعہ ہو وہاٹس آپ، فیس بک، ٹیوٹر اور دوسرے پروگراموں کے ذریعے اس تک پہنچ جاتا ہے، کسی چیز کے متعلق معلومات درکار ہوں تو گوگل کافی ہے، اس کے خزانے میں ہر طرح کی معلومات موجود ہیں، بس آپ کی انگلیوں کو حرکت کرنی ہے، اگلے ہی لمحے آپ کے موبائل فون کی اسکرین پر وہ تمام  معلومات آپ کی مطلوبہ زبان میں لکھی ہوئی سامنے آجائیں گی، ساری دنیا سے باخبر رہنے کا اس سے بہتر ذریعہ کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا، پہلے ریڈیو کھولنا پڑتا تھا، ٹی وی کی نشریات دیکھنی پڑتی تھیں، اخبارات پڑھنے پڑتے تھے، کتابوں کے صفحات الٹ پلٹ کرنے پڑتے تھے، اب یہ ساری چیزیں آپ کے اسمارٹ فون میں ہیں، نہ کہیں جانے کی ضرورت، نہ کسی جگہ جم کر بیٹھنے کی ضرورت، نہ کتابیں اٹھانے اور رکھنے کی ضرورت، نہ ٹی وی چینلوں کو گردش دینے کی ضرورت، پوری دنیا آپ کی مٹھی میں ہے، بس مٹھی کھولنے کی ضرورت ہے، یہ تو موبائل فون کا مثبت پہلو ہے، لیکن یہ ایجاد اپنے ساتھ کتنی خرابیاں لے کر آئی ہے اس کا احساس اب ذی شعور لوگوں کو ہونے لگا ہے، ممتاز عالم دین مولانا تقی عثمانی صاحب تو اسمارٹ فون کو دور حاضر کا سب سے بڑا فتنہ کہتے ہیں، اگر ایک سادہ سا موبائل ہو اور مقصد صرف اتنا ہو کہ اس کے ذریعے کسی کو فون کرلیا جائے یا کسی کا فون سُن لیا جائے تو اس سے بڑھ کر مفید چیز کوئی دوسری نہیں ہوسکتی، خرابی اس وقت پیداہوتی ہے جب یہ سادہ سا فون اسمارٹ فون میں یا ملٹی میڈیا فون میں تبدیل ہوجاتاہے، پھر اگر اس کا استعمال اس حد تک ہو جس حد تک کسی کو اس کی ضرورت ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، مثال کے طورپر ایک تاجر اسمارٹ فون صرف اس لیے رکھتا ہے کہ وہ اس کے ذریعے اپنی تجارت کو فروغ دے سکے یادور رہ کر اپنی تجارتی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکے اور انھیں دور رہ کربھی کنٹرول کرتا رہے تو یقینا یہ بہترین استعمال ہے، ایک صحافی اسمارٹ فون کے ذریعے دنیا بھر کی خبروں سے باخبر رہتاہے، واقعات عالم پر مشہور ومعروف قلم کاروں کے تجزیوں اور سیاست دانوں کے تبصروں کی روشنی میں وہ اپنی رائے قلم بند کرتا ہے اور اپنی یہ رائے نیٹ پر ڈال دیتاہے تاکہ لوگوں کے سامنے اس کا نقطۂ نظر بھی آجائے تو کہا جائے گا کہ یہ صحافی اپنے اسمارٹ فون کو صحیح طورپر استعمال کررہا ہے، اسی طرح کوئی طالب علم اپنے مضمون کی تیاری میں نیٹ پر دستیاب معلومات سے مدد لے رہا ہے تو یہ بھی غلط نہیں ہے، بات وہاں خراب ہوتی ہے جہاں اس کا استعمال غلط طورپر کیا جاتاہے، مولانا تقی عثمانی فرماتے ہیں کہ موجودہ دور میں اسمارٹ فون فحاشی پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، مولانا کا یہ تجزیہ صد فی صد درست ہے، آج ہماری نئی نسل بہ طور خاص اسمارٹ فون کو اس لیے گلے لگائے پھرتی ہے کہ وہ اس کی خلوتوں کا ساتھی اور تنہائیوں کا رفیق ہے، وہ اس میں کیا دیکھتا ہے کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں ہے، کچھ پہلے تک تفریح کا بڑا ذریعہ سنیما بینی تھا، لیکن بہت سے لوگ خاص طور داڑھی ٹوپی والے لوگ سنیما ہاؤس کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے اس لیے ڈرتے تھے کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو وہ طعنہ دے گا اور ہمارے احترام وعزت میں فرق آجائے گا، اب صورت حال بدل چکی ہے، دنیا بھر کی فلمیں آپ کی جیب میں ہیں، اور آپ کے اشارے کی منتظر ہیں، آپ داڑھی ٹوپی تو کیا  جبہ ودستار میں بھی ان فلموں سے استفادہ کرسکتے ہیں اور معاشرے میں اپنی بزرگی کا بھرم برقرار رکھ سکتے ہیں۔
فلمیں خاص طورپر فحش فلمیں تو اب بھی پردے میں دیکھی جاتی ہیں، لیکن دوستوں کے ساتھ سارا سارا دن اور پوری پوری رات چیٹنگ کرنے میں کسی آڑ کی ضرورت نہیں ہے، جسے دیکھو وہ خشوع خضوع کے ساتھ اس کام میں لگا رہتا ہے، وقت کی اضاعت، صحت کی بربادی، پیسے کا ضیاع، قریبی رشتوں کے ساتھ دوری، سب اسی اسمارٹ فون کی بدولت ہیں، ایک عامگھر کا منظر نامہ بھی کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ بیوی اپنے موبائل پر مصروف، شوہر اپنے موبائل کی اسکرین پر نظر جمائے ہوئے، بچے بھی والدین کے نقش قدم پر، نیند نے مجبور کیا سوگئے، ورنہ صبح تک پلک نہیں جھپکی جاتی، سونے کے بعد اٹھتے ہی سب سے پہلے فون پر اپنا اسٹیٹس چیک کیا جاتاہے، اس کے بعد دوسری مصروفیات شروع ہوتی ہیں۔
آج کے کالم میں ہم نے اسمارٹ فون کو اس لیے موضوع نگارش بنایا کہ دارالعلوم دیوبند نے اپنے طلبہ پر یہ پابندی عائد کی ہے کہ وہ اپنے پاس ملٹی میڈیا موبائل فون نہیں رکھ سکتے، اگر کسی طالب علم کے پاس سے اس طرح کا کوئی موبائل برآمد ہوا تو پہلی فرصت میں اس کا اخراج کردیا جائے گا اور اس کا کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا، چنانچہ تلاشی کے دوران دو طالب علموں کے پاس سے اس طرح کے فون برآمد ہوئے جن کا فوری طورپر اخراج کردیا گیا، جہاں تک ہمارا خیال ہے دارالعلوم دیوبند نے اسمارٹ فون پر پابندی لگانے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ درست سمت میں ایک صحیح قدم ہے، اور مستقبل میں اسکے اچھے نتائج برآمد ہوں گے، دیوبند کے دوسرے مدرسوں کو بھی دارالعلوم کی تقلید کرنی چاہئے، بلکہ تمام مدارس کو اس سلسلے میں سخت قدم اٹھانا چاہئے، اس بیماری پر اسی وقت مکمل طورپر قابو پایا جاسکتا ہے، شاید ہی کوئی طالب علم ایسا ہو جس کی جیب میں اسمارٹ فون موجود نہ ہو، ان نو عمر اور نا پختہ شعور بچوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس کو صرف تعمیری مقاصد میں ہی استعمال کریں گے، غیر شعوری طورپر ان کی رسائی ایسی ویب سائٹس تک ہوسکتی ہے جو ان کی اخلاقیات کو متأثر کرسکتی ہیں، اس لیے اس طرح کے موبائل سے ان کو دور رکھنا ہی بہتر قدم ہے، بہت سے محتاط علماء تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اسمارٹ فون کا استعمال صرف اس شخص کے لیے جائز ہے جس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور وہ جلوت وخلوت ہر حال میں اللہ کی پکڑ سے ڈرتا رہتا ہو، اگر کسی کا دل اللہ کے ڈر سے خالی ہو اس کے لیے جائز ہی نہیں کہ وہ اسمارٹ فون استعمال کرے۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ طلبہ صرف شوق میں اس طرح کے موبائل رکھتے ہیں اور وہ وہاٹس اپ یا فیس بک وغیرہ پر دوستوں اور رشتہ داروں سے رابطہ رکھنے یا ان سے چیٹ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے تب بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہدور طالب علمی میں اس طرح کے مشاغل بے حد مضر ہیں، حکیم الامت حضرت تھانویؒ تو دور طالب علمی میں رشتہ داروں کی طرف سے آئے ہوئے خطوط دیکھنے کے روا دار بھی نہیں تھے، بلکہ وہ ایسے تمام خطوط  جو انھیں ایام طالب علمی میں موصو ل  ہوتے ایک گھڑے میں ڈال دیتے تھے، جب سالانہ تعطیلات ہوتیں تو گھڑے کے اندر سے تمام خطوط نکالتے، انھیں پڑھتے، کسی کے مرنے کی خبر ہوتی تو اس کے گھر تعزیت کے لیے تشریف لے جاتے، کوئی خوشی کی خبر ہوتی تو اسے مبارک باد پیش کرتے، انھیں یہ گوارا نہیں تھا کہ وہ اپنا قیمتی وقت خطوط پڑھنے اوران کا جواب لکھنے میں ضائع کریں، آج ہم کئی کئی گھنٹے غیر ضروری اور لا یعنی چیٹنگ میں برباد کرتے ہیں، افسوس اس کا ہے کہ ہم لوگوں کو اس بربادی کا احساس تک نہیں ہوتا ، موبائل فون کے حد سے بڑھے ہوئے استعمال سے طلبہ میں مطالعۂ کتب کا شوق کم سے کم ہوتا جارہا ہے، بہت سے بد قسمت طلبہ تو درسگاہوں کی پچھلی صفوں میں بیٹھ کر بھی موبائل سے کھیلتے نظر آتے ہیں، ایسے میں کیا خاک پڑھائی ہوگی اور کیا خاک استعداد بنے گی، دارالعلوم کا اقدام بہ ظاہر تو سخت نظر آتا ہے مگر اس طرح کے سخت اقدام کی بڑی ضرورت تھی، اب رہی یہ بات کہ اخراج کے علاوہ بھی کوئی دوسری سزا ہے یا نہیں، اس سلسلے میں تو ہمیں حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندوی ؒ کی یہ رائے زیادہ پسند ہے کہ طالب علم کا اخراج کرنا ایسا ہے جیسے کسی عضو بدن میں کوئی تکلیف ہو اور اس تکلیف کا علاج کرنے کے بجائے اس عضو کو کاٹ کر پھینک دیا جائے، طلبہ ہمارے نظام کے لیے ایسے ہیں جیسے بدن کے اعضاء، اگر یہ اعضاء کسی بیماری میں مبتلا ہوں تو ان کے علاج کی ضرورت ہے نہ کہ ان کو کاٹ کر پھینک دینے کی، ہاں اگر کوئی عضو بالکل ہی گل سڑ جائے اور اس کے زہر یلے اثرات سے پورا نظام جسم متاثر ہونے لگے تب اسے کاٹ دینا ہی بہتر ہے، اگر اصلاح کی امید ہے تو آخری لمحے تک اصلاح کی کوشش ہونی چاہئے، جن دو بچوں کا اخراج ہوا ہے اگر ان کو ایک موقع اور دیا جاتا تو زیادہ بہتر تھا، اخراج کے علاوہ بھی سزا دی جاسکتی تھی مثلاً سال لوٹایا جاسکتا تھا، یا ان کے لیے کوئی دوسری مناسب سزاتجویز کی جاسکتی تھی، صورت حال اس سخت ترین سزا کی متقاضی تھی یا نہیں اس کا فیصلہ ذمہ دار ہی کرسکتے ہیں، سو انھوں نے کیا، ہم تو اس سلسلے میں قاری صدیق احمد باندویؒ کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں اور ذمہ داران مدارس کو بھی اس کا مشورہ دیتے ہیں کہ وہ حضرت باندویؒ کی رائے پر عمل کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔