Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, September 28, 2018

جس عہد میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صدائے وقت (ماخوذ)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
کہتے ہیں کہ جب جنرل ايوب  پاکستان کے صدر تھے تو ان دنوں جنرل ايوب کو بھارت میں ایک مشاعرے میں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا جب مشاعرہ شروع ہوا تو ایک شاعر نے ایک درد بھری غزل سے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔
جب وہ شاعر فارغ ہوا تو جنرل نے اس شاعر سےکہاکہ جناب! جو غزل آپ نےشروع میں پڑھی بہت درد بھری غزل تھی یقیناً کسی نے خون کے آنسوٶں سے لکھی ہو گی اور داد دیتے ہوئے کہا کہ مجھے بہت پسند آئی ہے! تو وہ شاعر بولا۔
جناب عالی! اس سے بڑی آپ کے لئے خوشخبری اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس غزل کا خالق، لکھنے والا شاعر آپ کے ملک کا ہے، جب جنرل نے یہ بات سنی تو  دھنگ رہ گے کہ اتنا بڑا ہیرہ میرے ملک کے اندر اور مجھے پتہ ہی نہیں جب انھوں نے اس شاعر کا نام پوچھا تو اس نے کہا جناب عالی! اسے
" ساغر صدیقی" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
جب جنرل ایوب اپنےوطن واپس آئے اور ساغر صدیقی کا پتہ کیا تو کسی نے بتایا کہ جناب عالی وہ لاہور داتا صاحب کے قریب رہتے ہیں تو جنرل نے اسی وقت اپنے چند خاص آدمیوں پہ مشتمل وفد تحائف کے ساتھ لاہور بھیجا اور ان کو کہا کہ ساغر صدیقی صاحب کو بڑی عزت و تکریم کے ساتھ میرے پاس لاٶ اور کہنا کہ جنرل ايوب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
جب وہ بھیجا ہوا وفد لاہور پہنچا تو انہوں نے اپنا تعارف نہ کرواتے ہوئے داتا دربار کے سامنے کھڑے چند لوگوں سے شاعر ساغر صدیقی کی رہائش گاہ کے متعلق پوچھا تو ان کھڑے چند لوگوں نے طنزیہ لہجوں کے ساتھ ہنستے ہوئے کہا کہ کیسی رہائش؟؟ کون سا شاعر؟؟ ارے آپ اس بھنگی آدمی سے کیا توقع رکھتے ہیں اور پھر کھڑے ان چند لوگوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیکھیں سامنے پڑا ہے مےخوروں کے جھرمٹ میں، جب وہ ايوب صاحب کا بھیجا ہوا وفد ساغر صدیقی کے پاس گیا اور ان کو صدرمملکت کا پیغام دیا تو ساغر صدیقی کہنے لگے کہ جاٶ ان سے کہہ دو کہ ساغر کی کسی کے ساتھ نہیں بنتی اسی لئے ساغر کسی سے نہیں ملتا (جب ساغر صدیقی نے یہ بات کہی تو بشمول ساغر نشے میں مست ایک زور دار قہقہے کے ساتھ کچھ دیر کے لئے زندگی کے دیے غموں کو بھول گیا) بہرحال بےپناہ اسرار کے باوجود وہ وفد واپس چلا گیا اور سارے احوال و حالات سے ايوب صاحب کو آگاہ کیا۔
کہتے ہیں کہ جنرل ايوب پھر خود ساغر صدیقی سے ملنے کے لئے لاہور گۓ اور جب ان کا سامنا ساغر صدیقی صاحب سے ہوا تو ساغر صدیقی صاحب کی حالت زار دیکھ کر جنرل کی آنکھوں سے آنسوٶں کی جھڑی لگ گئ اور پھر انہوں نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے غم سے چور ساغر صدیقی سے مصافحہ کرنا چاہا تو ساغر صدیقی نے یہ کہتے ہوئے ان سے ہاتھ پیچھے ہٹا لیا کہ:
"جس عہدمیں لٹ جائےغریبوں کی کمائی،،،
اس عہدکےسلطاں سےکوئی بھول ہوئی ہے.