Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, September 27, 2018

سپریم کورٹ کا فیصلہ اور سیاسی شعبدے بازی۔


                         ـــــــــــــــــــــــ 
           از ـــ محمود احمد خاں دریابادی
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
(بشکریہ صدائے وقت۔)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      جمعرات 27 ستمبر کو مسجد میں نماز پڑھنا مسلمانوں کا بنیادی حق ہےیا نہیں اس پر سپریم کورٹ کےفیصلے کاتفصیلی جائزہ ابھی نہیں لیاجاسکا ہے تاہم سرسری طور پر جو اہم نکات سامنے آرہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میڈیا کے تعاون سے جو کچھ لوگ اپنی جیت کا دعوی کرکے جشن منارہے ہیں وہ یا تو خود فریبی کا شکار ہیں یا پورے ملک کو فریب دے کر اپنا اُلو (ووٹ بنک پڑھاجائے) سیدھا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ـ
   اس فیصلے کی بنیاد دراصل سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر ہے جو حکومت کے اجودھیا میں      ۲.۷۷ ایکڑ زمین ایکوائر کرنے کے خلاف اور بابری مسجد میں نماز کی اجازت دینے کے سلسلے میں اسماعیل فاروقی کی دائر کردہ پٹیشن پر دیا تھا، اُس فیصلے کے درمیان ایک تبصرے ( آبزرویشن) کے طورپر طور پر یہ جملہ تھا کہ نماز چونکہ کہیں بھی پڑھی جاسکتی ہے اس لئے مسجد میں نماز پڑھنا بنیادی حق نہیں ـ
  اسی تبصرے کی بنیادپر الہ باد ہائی کورٹ نے بابری مسجد کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کاتعجب خیز فیصلہ دیا تھا، تعجب خیز اس لئے کہ اصل مقدمہ ملکیت ( ٹائیٹل سوٹ ) کا تھا آپسی بٹوارے کا نہیں تھا ـ
  خطرہ تھا کہ سپریم کورٹ بھی بابری مسجد کا فیصلہ اسی تبصرے کی بنیاد پر نہ کردے اس لئے مسلم فریق سپریم کورٹ گیا اور وہاں الحمد للہ موجودہ فیصلے کے ذریعے یہ طے ہوگیا کہ بابری مسجد کا مقدمہ ٹایٹل سوٹ ہے اس لئے اس کا فیصلہ ثبوت اورشواہد کی بنیاد پر ہوگا کسی عقیدے اور آستھا کے نام پر نہیں، اگرچہ یہ بات چیف جسٹس زبانی طور پر پہلے بھی کہہ چکے ہیں مگر باضابطہ فیصلے کے طور پر لکھے جانے سے مسلمانوں کا موقف مضبوط ہواہے،  ....... یہ بھی بات سامنے آگئی کے سابقہ تبصرے کا پس منظر الگ تھا ( مطلب یہ کہ بابری مسجد میں فیصلے سے قبل نماز پڑھنے کی اجازت طلب کرنا) موجودہ حالات میں ویسا پس منظر نہیں ہے ـ
    ہاں پچھلے فیصلے میں جو حکومت کو عوامی ضروریات ریلوے سڑک وغیرہ کے لئے تمام مذاہب کی عبادت گاہوں سمیت زمین اکوائر کرنے کی اجازت دی گئی تھی وہ اب بھی برقرار ہے اور کسی فریق نے اس کو ختم کرنے کی درخواست بھی نہیں دی تھی ـ
  اس مقدمے میں پرسنل لا بورڈ کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون پیش ہوئے ـ
    کچھ لوگ اس فیصلے پر بغلیں بجا کر مہنگائی، پٹرول، رفائیل وغیرہ سے لوگوں کا ذہن بھٹکانے کی کوشش کررہے ہیں ـ