Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, September 19, 2018

عاشورہ اور واقعہ کربلا۔


تحریر/ ارشاد احمد اعظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     عربی زبان کا لفظ " عاشوراء " مہینہ کی دسویں تاریخ کو کہا جاتا ہے ، یہ ہر مہینہ میں پڑتا ہے ، متعین مہینہ کا عاشوراء بولنے کے لئے ہمیں اس مہینہ کا ذکر کرنا پڑے گا، مثلا محرم کے عاشوراء کے لئے " عاشوراء محرم " کہنا پڑے گا، لیکن واقعہ کربلاء کے بعد لوگوں کے ذہن و دماغ پر یہ واقعہ  اب اس طرح سوار ہے  کہ محرم کے عاشوراء کے لئے اب " عاشوراء محرم " کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اصل لغوی معنی میں اس کا استعمال غلط ہوگیا ۔

    ماہ محرم اور عاشوراء محرم پر مجھے جو کہنا تھا ہفتہ دس دن پہلے کہہ چکا ، اس کے بعد  مزید کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا تھا ۔

    یزید کی حیثیت، خروج حسین اور واقعہ کربلاء کا معاملہ اتنا جذباتی اور  پیچیدہ بن گیا ہے، اور اپنے اپنے جذبات کی تسکین کے لئے ہر فریق نے  اس قدر من گھڑت روایات اور بعید از فہم فرضی کہانیوں کا سہارا لیا  ہے کہ حقیقت تک پہنچنا دشوار ہو گیا ہے ۔

    حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فدائیین کی آپ شناخت کر سکتے ہیں ، یزید کے حمائتیوں کو آپ الگ کر سکتے ہیں، لیکن آپ ان کو کیسے جانیں گے جو حق اور انصاف کی بات کرتے ہیں ؟ ۔
   ایک زمانہ تھا جب یزید کی آنکھ بند کرکے حمایت کرنے والے دمشق اور شام میں محدود تھے، انھوں نے دمشق اور شام کی فضیلت باور کرانے کے لئے سارے " اوتاد، ابدال، أقطاب اور غوث " کو اپنے پاس اکٹھا کر لیا، اور ایسا کھیل کھیلا کہ اچھے اچھوں کی زبان گنگ ہوگئی ۔
   ادھر نسل پرست اسلام دشمن ایرانی جن کا شاہی خون حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خون سے مل چکا تھا مسلمانوں میں انتشار و خلفشار پیدا کرنے کے لئے اپنی توانائی صرف کر دی ، اور جذباتی قصے کہانیاں گڑھنے کے اور خفیہ تحریکیں چلانے میں لگ گئے  ۔
    امویوں کے ہاتھ میں اقتدار تھا، اس لئے شروع میں وہ حاوی رہے، اور پورے مملکت میں بظاہر  ان کا طوطی بولتا رہا، لیکن امویوں کے زوال اور عباسیوں کے عروج کے بعد سماجی اور ثقافتی صورت حال بدلنے لگی ۔
    ایرانیوں اور امویوں کے بیچ  کروڑوں کی تعداد میں پوری مملکت اسلامیہ کے وہ مسلمان تھے جن کو اسلام کی فکر دامن گیر تھی، اور اپنی بساط بھر اشاروں اور کنایوں میں اپنی بات کہنے پر مجبور تھے  ۔
   امام ابوحنیفہ جیسی عظیم شخصیت جن کے آل علی سے گہرے اور قلبی روابط تھے، اور جن کی سیاسی اور مذہبی  ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں ، وہ بھی شیعیان علی کی طرف سے  شکوک و شبہات کے دائرے میں گھرے رہے ، اور ساتھ ہی عباسیوں کے عتاب سے گزرنا پڑا  ۔
    اس کے بعد تو حالات بگڑتے ہی گئے، اور بہت تیزی سے بگڑے، حالت یہ ہوگئی کہ جو علماء اہل سنت کہلاتے ہیں ان کے طرز عمل اور تحریروں  اور روافض کے طریقے اور تصنیفات میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ، لگنے لگا کچھ مسلم پٹیوں کو چھوڑ کر پورا عالم اسلام  شیعہ بن چکا ہے، اپنی پچھلی پوسٹ میں بھوپال کی مثال میں دے چکا ہوں ۔
    ان حالات میں واقعات کی چھان پھٹک اور حقیقت کی تلاش اور پھر  موجودہ دور کے مسلمانوں کو ان سے باور کرانا جوئے شیر لانے سے کم جوکھم بھرا کام نہیں ہے ۔

( صدائے وقت )۔