Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, September 13, 2018

دو قومی نظریہ یا متحدہ قومی نظریہ۔مولانا مودودی کا موقف۔

مولانا مودودی کا موقف دو قومی نظریہ یا متحدہ قومیت کے بارے میں۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
صدائے وقت / تحریر/ پرویز خان۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  
1937 ء میں کانگریس کی سیاسی تحریک اس قدر زور پکڑ گئی کہ بہت سے مسلمان خود علماء کرام کی بہت بڑی تعداد بھی ہندوؤں کے ساتھ مل گئ۔کانگریس یہ کہتی تھی کہ ہندوستان کے مسلمان اور ہندو سب مل کر ایک قوم ہیں ۔یہ ایک ایسی خطرناک بات تھی کہ اگر اسے مان لیا جاتا تو ہندستان میں مسلمانوں کی علیحدہ حیثیت بالکل ختم ہوجاتی اور ان کا دین بھی خطرے میں پڑ جاتا۔ کانگریس کے اس نظرئے کو ’’متحدہ قومیت ‘‘ یا ’’ایک قومی نظریہ ‘‘ کا نام دیا جاتا تھا۔ سید مودودیؒ نے اس خطرے کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے اس کے خلاف بہت سے مضامین لکھے جو کتابوں کی صورت میں ’’مسئلہ قومیت‘‘ اور ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ‘‘ حصہ اول و دوم کے نام سے شائع ہوئے۔ ان مضامین میں سید مودودی نے زوردار دلیلوں سے ثابت کیا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں ۔کیونکہ دونوں کا تصورِ خدا، مذہبی عقیدہ، رہن سہن، اور طور طریقے سب جدا جدا ہیں، انہیں ایک قوم کہنا بالکل غلط ہے۔

1940 ء کی قرارداد پاکستان کے بعد مسلمانوں کے بڑے بڑے رہنما اور مسلم لیگ کے دوسرے لیڈر بھی یہی بات کہنے لگے۔ اسے ’’ دو قومی نظریہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ سید مودودی نے مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کے نظرئے کو اتنے اچھے اور عمدہ طریقے سے ہیش کیا کہ کہ اس خوبی کے ساتھ اب کوئی اور شخص مسلمانوں کے علیحدہ قومی تصور کی مدلل وکالت نہیں کرسکا تھا۔سید مودودی نے قرآن و حدیث سے دلائل دیئے۔۔۔۔ ان دلائل کا کانگریس کے ساتھ وابستہ علماء کرام کے پاس بھی کوئی جواب نہ تھا۔

اپنے ان مضامین کے بارے میں خود مولانا مودودی ؒ کے الفاظ ہیں کہ’’ 1937 ء میں مجھ کو حیدرآباد سے دہلی جانے کا اتفاق ہوا اس سفر کے دوران میں مَیں نے محسوس کیا کہ ہندستان کے چھ صوبوں میں کانگریس کی حکومت قائم ہوجانے کے بعد مسلمانوں پر کھلی کھلی شکست خوردگی کے آثار طاری ہوچکے ہیں۔دہلی سے جب میں واپس حیدر آباد جارہا تھا تو ریل میں ایک مشہور ہندو لیڈر ڈاکٹر کھرے (ڈاکٹر کھرے 1937کے انتخابات کے بعد سی پی کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے ) اتفاق سے اسی کمپارٹمنٹ میں سفر کررہے تھے جس میں مَیں تھا اور بھی بہت سے مسلمان اس میں موجود تھے میں نے دیکھا کہ مسلمان ڈاکٹر کھرے سے بالکل اسی طرح باتیں کررہے ہیں جیسے ایک محکوم قوم کے افراد حاکم قوم کے فرد سے کرتے ہیں یہ منظر میرے لئے ناقابل برداشت تھا۔حیدر آباد پہنچا تو یقین کیجئے کہ میری راتوں کی نیند اُڑ گئی سوچتا رہا کہ یا اللہ ! اب اس سرزمین پر مسلمانوں کا کیا انجام ہوگا۔آخر کار میں نے وہ سلسلہ مضامین لکھا جو ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ حصہ اول کے نام سے شائع ہوا۔"

ان حقائق کو سامنے رکھنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ جو  فکر اور اندیشے مولانا کو اس وقت لاحق تھے اسے آج  کھلی ہوئی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔