Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, September 27, 2018

آبجیکشن مائی لارڈ۔


تحریر /نایا ب حسن۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
سپریم کورٹ نے آج آئی پی سی کی دفعہ497کے تحت آنے والے زناکاری کے قانون کوکالعدم قراردے دیاہے،یہ قانون 158سال پراناتھا اوراس کے تحت شادی شدہ خاتون کو بغیر شوہر کی اجازت کے جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں تھی،اگر ایسا ہوتاہے ،توزناکار عورت کے لیے توکوئی سزانہیں تھی،اسے متاثرہ ماناگیاتھا، البتہ مردکے لیے پانچ سال تک کی سزاکی تجویز تھی۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت چاردگر ججوں کی بنچ نے اس قانون کو مجموعی طورپر یہ کہتے ہوئے کالعدم قراردیاکہ یہ سماجی انصاف ،مساوات،خواتین کے حقوق اوررائٹ ٹوپرائیویسی کی خلاف ورزی کرتاہے،معززججزکاکہناتھاکہ کیاعورت اپنے شوہر کی ملکیت ہے کہ اسے کسی سے جنسی تعلقات قائم کرنے کے لیے شوہر کی اجازت لینی چاہیے؟انھوں نے متذکرہ قانون کے ایک پہلو پراعتراض کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ اگر شادی شدہ عورت کسی مردکے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتی ہے،تومذکورہ قانون کے مطابق صرف مرد کو سزاہوگی،عورت کونہیں ہوگی،حالاں کہ اگر یہ عمل جرم ہے،تودونوں کومجرم ہونا چاہیے۔
گویا مذکورہ بالا قانون میں دوخامیاں تھیں :ایک تویہ کہ شادی شدہ عورت اگر کسی سے جنسی تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے،تواسے شوہر کی اجازت سے مشروط کیا گیا تھا، جوعدالت کو سماجی انصاف کے خلاف اور رائٹ ٹوپرائیویسی کا معاملہ نظرآیااور دوسری خامی یہ تھی کہ ایساواقعہ رونما ہونے کی صورت میں مجرم صرف مرد کو گردانا جاتا تھا، حالاں کہ اس عمل میں دونوں برابرکے شریک تھے؛چنانچہ پانچ ججوں کی’’ بصیرت ،معاملہ فہمی ،قانونی آگاہی و انسانیت نوازی‘‘ اس نتیجے پر پہنچی کہ سرے سے اس قانون کوہی کالعدم قراردے دیاجائے،یعنی اب کسی شادی شدہ عورت کا کسی مردکے ساتھ جنسی تعلقات کرنا کوئی جرم نہیں ،جرم تو عورت کے حق میں پہلے بھی نہیں تھا،اب مرد کے لیے بھی جرم نہیں رہااور دوسرے یہ کہ اس کے لیے عورت کو شوہر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔دلیل میں ایک تووہی اوپر ذکرکردہ باتیں کہی گئی ہیں، دوسرے بہ طوراستشہاد یہ کہاگیاکہ چوں کہ چین ،جاپان اور برازیل وغیرہ میں ایسا کرنا جرم نہیں ہے؛اس لیے ہندوستان میں بھی اسے جرم نہیں ہونا چاہیے۔
کیرلاکے جوزف سائن نامی’’ ایکٹوسٹ ‘‘نے دفعہ497کے خلاف عرضی داخل کی تھی اور جولائی میں مرکزی حکومت نے اپنا حلف نامہ داخل کرتے ہوئے ہندوستانی سماج و تہذیب کے تحفظ اور خاندانی نظام کی بقاکا حوالہ دیتے ہوئے اس قانون کوبرقرار رکھنے کی اپیل کی تھی۔حکومت کا موقف اس معاملے میں قانون کو برقرار رکھنے ، البتہ حسبِ ضرورت اس میں ترمیم و تبدیلی کرنے کا تھا؛لیکن اگست میں اس کیس کی آخری سماعت ہوئی اور متعلقہ ججوں نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیاتھا،جسے آج سنایا گیاہے۔
حیرت کی بات ہے کہ زیادہ تر روشن خیال سمجھے جانے والے لوگ اس فیصلے کی سراہناکررہے ہیں اور اسے خواتین کے امپاورمنٹ سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں،حالاں کہ اگر اس کی تہہ میں جائیں ،توپتاچلتاہے کہ کورٹ نے فیصلہ محض اس بناپر دیاہے کہ موجودہ زمانے میں بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں زناکاری کوئی جرم نہیں ہے،اس کیس کی سماعت کے دوران ججوں نے ایسے حوالے بھی دیے اور آج فیصلہ سناتے ہوئے بھی چند ملکوں کونامزدکرکے یہ کہاگیاکہ وہاں اس طرح کا کوئی قانون نہیں ہے؛لہذا ہندوستان میں نہیں ہونا چاہیے،حالاں کہ کسی بھی معاملے میں فیصلہ متعلقہ ملک،مقام اوروہاں کے سماج و تہذیب کو دیکھتے ہوئے ہونا چاہیے تھا،پھر یہ کہ معززججوں کو اپنی بصیرت بھی تو استعمال کرنی چاہیے تھی،دوسرے یہ کہ یہ فیصلہ قطعی خواتین کے حق میں نہیں ہے،اس میں تو مردوں کو چھوٹ دی گئی ہے،جبکہ مذکورہ قانون کے مطابق عورت کو متاثرہ اور مردکو مجرم ماناگیاتھااوراس کے لیے پانچ سال تک کی سزاتجویز کی گئی تھی۔مزید حیرت اس پر ہے کہ معزز عدلیہ نے اپنے ریمارک میں کہا کہ اگر میاں بیوی کوپریشانی ہو،توان کے لیے طلاق کا راستہ کھلاہے،واہ!ایک طرف توابھی کچھ ہی دن پہلے طلاق کے نام پر مسلم مردوں کورگڑچکے ہیں،دوسری طرف یہ فرمایاجارہاہے کہ اگر زناکاربیوی سے شوہر کواور زناکارشوہر سے بیوی کو مسئلہ ہو،توان کے لیے طلاق کا راستہ کھلاہے۔بھلے ہی عدالت نے شادی کے بعد زناکاری کو قانونی جواز فراہم کردیاہے؛لیکن ہندوستانی معاشرے میں کیاکوئی شوہر یابیوی اس صورتِ حال کو جانتے بوجھتے برداشت کرسکتے ہیں؟یقیناًنہیں کریں گے اوراس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہونا چاہیں گے،طلاق کی نوبت آئے گی یا یوں ہی اپنے وزیر اعظم کی طرح ایک دوسرے کو کو چھوڑکر چلتابنے گا،پھر ذرا غور کیجیے کہ ان کی اولاد کاکیا بنے گا؟آخر کورٹ نے معاملے کے اس پہلو پرکیوں غور نہیں کیا؟چند دن پہلے فیس بک پر پاکستان کے ایک نیوز چینل کی جانب سے نشرکی گئی ایک ویڈیودیکھی تھی،جس میں ایک چار سال کی بچی کو دکھایاگیاتھا، وہ بچوں کے شیلٹرہوم میں تھی،اس سے جب چینل کے نمایندہ نے اس کے والدین کے بارے میں دریافت کیا،تواس معصوم بچی نے عجیب دلدوز واقعہ سنایا کہ اس کاباپ ایک معمولی رکشاڈرائیور ہے،جسے اس کی ماں نے چھوڑدیاتھااور بیٹی کے ساتھ الگ رہتی تھی،پھر اس کا کسی دوسرے مرد کے ساتھ معاشقہ ہوا،دونوں گلچھرے اڑاتے رہے،ماں کی ممتامشہور ہے،مگر وہ ہوسناک وسفاک عورت اپنی اس معصوم بیٹی کے ساتھ مارپیٹ کرتی رہی اور پھر ایک دن اسے ایک پولیس اسٹیشن پر چھوڑکر اپنے آشناکے ساتھ فرار ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک گھناؤناجرم ہے اور وہاں کی پولیس وحکومت اگر حساس ہوگی تو ضرور ایکشن لے گی،مگر کیاہماری عدلیہ نے آج جو فیصلہ سنایاہے،اس کی روشنی میں اپنے یہاں خدانخواستہ آیندہ قانونی جواز کے ساتھ اِسی قسم کے واقعات کے امکانات بڑھتے ہوئے نظرنہیں آتے؟شادی شدہ مردوخواتین کا جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے اِدھر اُدھرمنہ مارنااگر ان کی پرائیویسی اور سماجی انصاف کامعاملہ ہے، تودیگر گھریلواور سماجی تباہیوں کواگران دیکھابھی کردیاجائے ،توکم ازکم یہ توطے کیاجاناچاہیےکہ ان کے جو بچے ہوں گے،ایسے حالات میں ان کی کیا پوزیشن ہوگی اوراگران کے ماں باپ رائٹ ٹوپرائیویسی حاصل کرنے کے چکرمیں اپنےاپنے معشوق ومعشوقہ کے ساتھ فرارہوگئے، توان کا کون پرسانِ حال ہوگا؟ بہرکیف اس فیصلے میں کئی جھول ہیں،مرکزی حکومت خود اس فیصلے کے لیے تیار نہیں تھی،اب آگے اس کی طرف سے کیاقدم اٹھایاجاتاہے،یہ دیکھنا چاہیے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
بشکریہ مولانا طاہر مدنی۔صدائے وقت۔