Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, September 25, 2018

شاید کی اتر جاِے تیرے دل میں میری بات۔


تحریر/مولانا ندیم الواجدی

            (صداۓوقت)
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  
اس وقت دیوبند میں کم وبیش دس ہزار طلبہ مقیم ہیں، یہ سب حصولِ علم ِدین کی غرض سے یہاں جمع ہیں، طلبہ کی ایک بڑی تعداد دارالعلوم دیوبند میں ہے، اس کے بعد دوسرے مدارس میں،  ۸۰ء؁ سے قبل یہاں دارالعلوم دیوبند کے علاوہ کوئی قابل ذکر مدرسہ ایسا نہیں تھا جہاں عربی درجات کی باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ ہو، چند چھوٹے چھوٹے مکتب تھے، جن میں صرف مقامی بچے پڑھا کرتے تھے، ۸۰ء ؁ کے بعد اچانک مدرسوں کا سیلاب آیا، اور اب دیوبند کے چپے چپے پر مدرسے قائم ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد تین سو سے متجاوز ہے، اکثر مدرسوں میں درس نظامی کی باقاعدہ یا بے قاعدہ تعلیم ہے، بعض میں دورۂ حدیث شریف کا درجہ بھی ہے، کچھ مدرسوں میں مفتی بھی بنائے جارہے ہیں، بلکہ بعض مدرسے تو صرف شعبۂ افتاء ہی کے طلبہ کو داخل کرتے ہیں، مشتاقانِ علم؛ حصول علم کے جذبے سے سرشار ہوکر دیوبند کی نسبت عالیہ کے سلسلۂ زریں سے منسلک ہونے کے لیے ملک اور بیرون ملک سے یہاں آتے ہیں ، اور اپنا دامانِ مراد بھرکر واپس جاتے ہیں، یہ جو مدرسوں کی ہما ہمی ہے، یہ جوان کا عروج ہے، یہ جو ایک مدرسے کے پہلو سے دوسرا اور دوسرے سے تیسرا مدرسہ جنم لے رہا ہے یہ سب ان ہی طلبہ کے مبارک قدموں کا طفیل ہے، اگر یہ نہ ہوں تو مدرسوں کے سجے سجائے گلشن اقبال کی کشتِ ویراں کا نظارہ پیش کریں، اور حضرات منتظمین کا نخلِ تمنا کبھی بار آور ہی نہ ہو، کہا بھی یہی جاتا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قابل قدر مہمانوں کی ضیافت اور راحت وآرام کے لیے ہورہا ہے، ملت اسلامیہ بھی ان مدرسوں کی ایک ادنی سی اپیل پر دست ِجود وسخا بڑھانے میں بخل سے کام نہیں لیتی ، دادودہش کی یہ برسات پورے سال جاری رہتی ہے، ان حالات میں یہ توقع کی جانی چاہئے کہ جو کچھ مدرسوں کو طلبہ کے اخلاصِ نیت اور جذبۂ حصولِ علم کی بہ دولت مل رہا ہے اس کا کم از کم نصف حصہ تو ان پر خرچ ہوجائے، مگر صورت حال اس توقع کے برخلاف ہے، ہم کئی سال سے مسلسل مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کے مسائل ومشکلات پر لکھ رہے ہیں، اور بعض جبہ ودستار والوں کی زبانِ طعن کا نشانہ بھی بن رہے ہیں، نہ وہ اپنی خو چھوڑتے ہیں اور نہ ہم اپنی وضع بدلتے ہیں، نہ ہم اپنے عنانِ قلم کو روک پاتے ہیں، نہ وہ اپنی زبانِ طعن کو لگام دیتے ہیں اور نہ حالات کی ستم ظریفی میں کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔
تازہ وارداتِ دل کو قلم کے حوالے کرنے کا سبب یہ ہوا کہ آج کل دیوبند موسمی بیماریوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، ٹائیفائڈ، ملیریا اور ڈینگو جیسے خوفناک امراض گھر گھر دستک دے رہے ہیں، اور اس گھر کے مکینوں کو اپنی گرفت میں لے رہے ہیں، دیوبند کا ہر ڈاکٹر ان دنوں بے پناہ مصروف ہے، تمام چھوٹے موٹے ہسپتال ان بیماریوں کا شکار ہونے والوں سے بھرے ہوئے ہیں، کہنے کو تو دیوبند عالمی سطح پر شہرت رکھنے والا ایک قصبہ ہے، اس کی یہ پہچان کہ اس کی آغوش میں دارالعلوم دیوبند جیسا بلند قامت تعلیمی ادارہ ہے اسے شہرت کے آسمان کا آفتاب وماہتاب بنائے ہوئے ہے، مگر اس کی یہ پہچان ہی اسے  حکومتوں کی سردمہری اور بے اعتنائی کا شکار بھی بنائے ہوئے ہے، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، غلاظت سے اَٹی نالیاں، ہر طرف کوڑوں کے ڈھیر، اور ان سے پھوٹتا ہوا تعفن بھی اس قصبے کی شناخت ہے، گنجان آبادی رکھنے والے اس چھوٹے سے قصبے کی صفائی ستھرائی کا یہ حال ہو تو لوگ بیمار کیوں نہ پڑیںگے، گذشتہ سال اور اس سے پہلے والے سال میں بھی ان دنوں ڈینگو نے اپنے خوف ناک پنجے پھیلائے تھے اور بہت سے لوگ اس کے پنجوں کا شکار ہوکر موت کی آغوش میں جاسوئے تھے، اس سال پھر یہ مرض پھیل رہا ہے، اہل شہر کے ساتھ طلبہ بھی اس مرض کا شکار ہورہے ہیں، ہمیں اپنی بے حسی کا اعتراف ہے، اگر دیوبند کی ایک سماجی تنظیم ہسپتالوں کا دورہ کرکے مجبور وبے کس اور بے سہارا طالبانِ علوم ِنبوت کے فوٹو وائرل نہ کرتی تو ہمیں یہ احساس بھی نہ ہوتا کہ طلبہ کس پریشانی سے گزر رہے ہیں، بالآخر اس تنظیم نے یہ اعلان بھی کردیاکہ وہ ان بیمار طلبہ کے علاج معالجے کے لیے اپنا دست تعاون دراز کرے گی جو مالی پریشانی کی وجہ سے اپنا صحیح علاج نہیں کراپارہے ہیں، ہمارے ایک عزیز نے بھی دارالعلوم دیوبند کے مہتمم صاحب کی خدمت میں ایک کھُلا خط لکھ کر بیمار طلبہ کی حالت زار کی طرف توجہ دلائی ہے، ان کے اس خط نے اور دیوبند کی مذکورہ سماجی تنظیم کے جذبۂ ایثار وخدمت نے آج کے کالم میں اس موضوع پر کچھ لکھنے کی تحریک وترغیب دی ہے، سو ہم بھی اپنا فرض ادا کرنا چاہتے ہیں اس امید پر کہ جو لوگ ہمارے مخاطب ہیں ان کے دل میں بات اترے گی اورانھیں ان طلبہ کا خیال ضرور آئے گا جو اپنے مشفق والدین کی آغوشِ شفقت ومحبت کو چھوڑ کر مدرسوں کے سایۂ عاطفت میں آپڑے ہیں۔
چند سال پہلے کی بات ہے احقر راقم السطور رات کے دس گیارہ بجے کے درمیان چہل قدمی کرتا ہوا گھر لوٹ رہا تھا کہ چند طالب علموں پر نظر پڑی جو دارالعلوم کے قریب ایک نالی کے کنارے کھڑے ہوئے تھے، قریب پہنچا تو دیکھا کہ ایک طالب علم زمین پر بیٹھا ہے اور الٹیاں کرہا ہے، کمزوری اور نقاہت سے اس کا برا حال تھا، پورا جسم ٹھنڈا پڑا تھا، تیمار دار طلبہ بھی گھبرائے ہوئے تھے، دریافت کرنے پر انھوں نے قریب کے محلے کے ایک ڈاکٹر کا نام لیا کہ وہ اس طالب علم کو اس کے پاس لے کر جارہے ہیں، میں نے کہا کہ آپ اسے فلاں بڑے ڈاکٹر کے پاس لے کر جائیں اور اس کو اس کے کلینک میں داخل کریں، یہ بچہ الٹی اور دست میں مبتلا ہے، محلے کا ڈاکٹر اس کا صحیح علاج نہیں کر پائے گا، انھوں نے بے چارگی سے کہا کہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں، اس وقت جو مجھ سے ہوسکتا تھا وہ میںنے کیا اوران سے کہا کہ آپ بڑے ڈاکٹر ہی کے پاس جانا صبح یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا، صبح کو میں نے اس مدرسے کے ذمہ داروں سے رابطہ قائم کیا اور بیمار طالب علم کے علاج کی طرف توجہ دلائی، علاج ہوا اور وہ تندرست ہوکر واپس آیا، اس وقت مجھے خیال آیا کہ ہمارے عزیز طلبہ جب بیمار ہوتے ہیں تو انھیں اور ان کے تیمار دارساتھیوں کو کس قدر پریشانی اٹھانی پڑتی ہے، کیا ذمہ داران مدارس کو ان کی پریشانی کا علم نہیں ہوتا یا علم تو ہوتاہے مگروہ احساس نہیں ہوتاجو اپنے جگر گوشوں کو بیمار دیکھ کر ہوتاہے، اس وقت بھی احقر نے لکھا تھا، آج پھر لکھتا ہوں کہ ان طلبہ عزیز کے لیے ایک بہترین ہسپتال کی سخت ضرورت ہے، یہ کام دارالعلوم دیوبند بڑی آسانی کے ساتھ کرسکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس پر فتوحات کے جو دروازے کھول رکھے ہیں ان کی موجودگی میں چند کڑوڑ کی لاگت سے دارالعلوم کے کیمپس میں جدید وسائلِ علاج سے آراستہ ایک بڑے ہسپتال کا قیام کچھ مشکل نہیں ہے، جس طرح ہم نے ان کی روحانی تربیت کا ایک مکمل نظام قائم کر رکھا ہے، اور ہم اس نظام کو روبہ عمل لانے کے لیے شب وروز جدوجہد کررہے ہیں اسی طرح ان کی جسمانی نگہداشت بھی ہماری ذمہ داری ہے، بعض طلبہ سنگین بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور انھیں دیوبند کے قریب شہروں کی طرف بھاگنا پڑتا ہے یا اپنے گھروں کو واپس جانا پڑتاہے، اس ہسپتال سے وہ اپنی مادر درس گاہ میں رہ کر آسانی کے ساتھ اپنا علاج کراسکیں گے، کہنے کو دارالعلوم میں عظمت ہسپتال موجود  ہے، مگر وہ جیسا کچھ ہے سب کے سامنے ہے  ۸۰ ء؁سے قبل دارالعلوم دیوبند میں جامعہ طبیہ قائم تھا، اس کے تحت ہسپتال بھی تھا، جس میں اطباء اور ڈاکٹرس دونوں ہی مریضوں کو دیکھا کرتے تھے، جامعہ طبیہ ختم ہوچکا ہے، اس زمانے میں ہر سال چند طلبہ اس ادارے سے فارغ ہوکر سرکاری ہسپتالوں میں معالج بن جاتے تھے یا اپنے مطب کھول کر غم روز گار سے بے نیاز ہوجایا کرتے تھے، ان کی یہ مشغولیت خدمتِ خلق کا بھی بہترین ذریعہ تھی، آج بھی اس دور کے بہت سے فارغین بہترین مطب چلارہے ہیں،جامعہ طبیہ کے ختم ہونے سے یہ بڑا نقصان ہوا ہے، دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ہسپتال کی وہ کارکردگی باقی نہیں رہی جو مطلوب تھی۔
آج سے چند برس قبل لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام دارالعلوم دیوبند کا دورہ کرنے آئے تھے اس موقع پر انھوں نے دیوبند میں ایک بڑا ہسپتال بنانے کے لیے خطیر رقم کا اعلان کیا تھا، بعد میں سنا گیا کہ وہ رقم حضرت مولانا اسعد مدنیؒ صدر جمعیۃ علماء ہند اور رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند کے حوالے بھی کردی گئی ہے، دیوبند کے لوگ خوش تھے کہ یہاں بھی ہسپتال بن جائے گا، ہسپتال کی تعمیر میں تاخیر پر تاخیر ہوئی تو کچھ لوگ وفد بناکر حضرت صدر محترم کی خدمت میں حاضر بھی ہوئے، حضرت نے فرمایا کہ ہسپتال مظفر نگر میں بنایا جائے گا، یہ بھی غنیمت تھا، مگر نہ وہ دیوبند میں بنا اورنہ مظفر نگر میں بن سکا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیا حالات پیش آئے اور کونسے اسباب رکاوٹ بنے،ہوسکتا ہے رقم ہی نہ ملی ہو اور خواہ مخواہ یہ افواہ پھیل گئی ہو کہ رقم پہنچ گئی ہے بد گمانی میں کیوں مبتلا ہوں، ہم تو ہسپتال کے حوالے سے بس اپنا دردِ دل ان الفاظ میں بیان کریں گے ،اے بسا آرزوکہ خاک شدہ۔
ابھی حال ہی میں مولانا بدر الدین اجمل رکن شوریٰ درالعلوم دیوبند کی ایک آڈیو احقر نے سنی، ویسے تو یہ آڈیو مولانا نے ایک زمینی تنازع کے پس منظر میں جاری کی ہے، مگر اس سے یہ معلوم ہوا کہ مولانا بدر الدین صاحب دیوبند میں ایک ہسپتال بنانا چاہتے ہیں اوراس مقصد کے لیے وہ اپنی ۹/ بیگہ اراضی جو عیدگاہ دیوبند کے قریب واقع ہے، فروخت کرکے کسی دوسری جگہ اس سے بڑی زمین خریدنا چاہتے ہیں، ان کی زبان سے یہ بات سن کر خوشی ہوئی، اب جب کہ وہ اراضی فروخت نہیں ہوئی ہے ہم تو یہی مشورہ دیں گے کہ اگر واقعی وہ ہسپتال بنانا چاہتے ہیں تواسی قطعۂ زمین پر بنالیں، یہ زمین دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف اور دوسرے تمام مدراس کے درمیان واقع ہے، ایک گزارش ان سے یہ بھی ہے کہ وہ اپنے منصوبے کو جلد از جلد عملی جامہ پہنانے کی زحمت کریں، گذشتہ دنوں ایک طالب علم ڈینگو کا شکار ہوا ، بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے وہ بے چارہ اللہ کو پیارا ہوگیا، ہوسکتا ہے اس کا مناسب علاج ہوجاتا اور وہ بچ جاتا، یوں قضا وقدر کے آگے کس کی چلی ہے، مگر ظاہری اسباب کی بھی اپنی اہمیت ہے، ہم نے مضمون لکھنے سے پہلے پڑوسی ملک کے اپنے ایک کرم فرما سے رابطہ قائم کرکے معلوم کیا کہ وہاں مدرسوں میں طبی سہولتوں کے حوالے سے کیا انتظامات ہیں، ان کا جواب اطمینان بخش تھا، بڑے مدرسوں میں ہمہ وقت ڈاکٹرس موجود رہتے ہیں، شدید بیماری لاحق ہونے پر مریض طلبہ کو ان بڑے ہسپتالوں میں منتقل کردیا جاتاہے جن سے ان مدارس کا معاہدہ ہے، بیماری بلکہ آپریشن تک کے تمام اخراجات مدارس برداشت کرتے ہیں، کاش ہمارے مدارس بھی پڑوسی ملک کے مدرسوں سے کچھ سبق لیں، میں نہیں سمجھتا کہ طلبۂ عزیز کی صحت کے مسائل کو نظر انداز کرکے ہم ان کا صحیح حق ادا کررہے ہیں۔