Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, September 26, 2018

ایسے ہی کچھ بچپن آپ کو مدد کے لئیے پکار رہے ہیں۔

ایسے ہی کتنے ’بچپن‘ آپ کو مدد کیلئے پکاررہے ہیں؟
تحریر / حمزہ اصلاحی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
گزشتہ دنوں راہ چلتے ہو ئے ایک بچی نظر آئی۔ وہ   راستے کے ایک طرف نالے کے ڈھکن پر بیٹھی تھی،   اس کے سامنے کا لا کپڑا رکھا ہوا تھا جس پر کچھ  سکے اور کچھ مڑےتڑے نو ٹ  بے ترتیبی سے بکھر ےہوئے تھے۔جیسے ہی اسکے قریب  سے کوئی گزرتا، وہ مانگنے کیلئے  صدالگاتی اور ہا تھ پھیلا تی۔ اس دوران  ایک ایسا لمحہ بھی آیا جب وہاں سےکوئی نہیں گزرا، اس تھوڑے سے وقفے میں بچی   نےکالا کپڑا ہٹا یا اور پتھروں سے کھیلنے لگی،   وہ  ایک ہاتھ سے پتھر کو  اچھالتی اور  دوسرے ہاتھ سے پکڑتی ۔ وہ کچھ دیر کیلئے اس کھیل میں کھوگئی  اور وہی کرنے لگی جو اسے  اس عمر میں کر نا چاہئے ،  اسی بہانے کچھ دیر کیلئے اپنا بچپن جینے لگی۔ پتھر اچھال اچھال کر پکڑ تے وقت اس کی آنکھوں  میں  چمک آجاتی،ا س کے چہرے پر عجیب سی  خوشی بکھر جاتی ۔  پتھر اچھالتے اور انہیں  پکڑتے وقت گندے ، لٹ دار بال اور میلے کچیلے کپڑوں والی بچی واقعی بچی لگ رہی تھی، اچھی لگ رہی تھی۔  میں سوچنے لگا کہ کوئی  اس بچی کو کنگھا کردیتا  ، اس کے سر پہ تیل رکھ دیتا ، اس  کے بال سنوار دیتا، اسے نہلا دھلا کر صاف ستھرے کپڑے پہنا دیتا تو  وہ  اور بھلی لگتی ،پیاری لگتی ، عام بچیوں جیسی لگتی۔ابھی میںبہت زیادہ سوچ بھی نہیں  پایا تھا کہ  بچی پھر سے بڑی ہو گئی  اورپتھر وَتھر پھینک کر پھر وہی کام کرنے لگی، کالا کپڑا پھیلا کر ایک مخصوص آواز  میں  ہاتھ ہلا ہلاکر بھیک مانگنے لگی۔   یہی بچی  پتھر ا چھالتےا ور انہیں پکڑتے وقت بھی ہاتھ کو حرکت دے رہی تھی مگر’ اُس میں اِس میں‘ زمین آسمان کا فرق تھا ۔ وہ   ایک  یا دگار لمحہ تھا، ایسالگا کہ ایک جھونکا  تھا لطیف سا آیا  گزرگیا۔     بچہ ہے تو کھیلے گا ہی ، اسے جہاں بھی موقع  ملے گا  ، وہ اپنے بچہ ہو نے کا ثبوت دے گا ،  اس بچی نے بھی   چند لمحے اور چند ثانیے  ہی کیلئےسہی  بچی ہونے کا ثبوت دیا ۔ اسی ممبئی میں ایسے ہی کتنے بچے  اور بچیاں  ہیں جن کا بچپن ہماری آنکھوں کے سامنے کسی نالے کے ڈھکن پر تڑ پ تڑپ کا دم توڑ دیتا ہے ، ہم اس پر چونکتے بھی نہیں ،  زیادہ سے زیادہ ان کے ’مالک کی جھولی‘ میں چند سکے  ڈال کر آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ کبھی ان کی  زندگی کے حسین ترین پل ’ بچپن ‘ کے بارے  میں سوچتے بھی نہیں ۔ ’مالک کی جھولی ‘ اس لئے کہ  اس شہر میں اکثر بچے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے ہاتھ نہیں پھیلا تے بلکہ وہ کسی پرائے کا جہنم بھر نے کیلئے اتنی بڑی قربانی دیتے ہیں  اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں ہے ،  ہر کوئی جانتا ہے کہ یہاں کئی ’ سفید پوش‘ ایسے ہیں جو کسی کو سبز باغ دکھا کر   اس کے ننھے سے بچے کو ممبئی لاتے ہیں ، کبھی کبھی غربت کا فائدہ اٹھا کر خرید کر لاتے ہیں  اور دن بھر کسی  فٹ پاتھ یا ریلوے اسٹیشن پر بٹھا دیتے ہیں،  یہ بچے ہر آنے جانے  والے کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں ، بعض دفعہ تو یہ طویل مسافتی یا لو کل ٹرینوں میں اپنا شکار تلاش کرتے ہیں۔گونگے بن کر اشاروںہی اشاروں میں بتاتے ہیں کہ انہیں  بہت بھوک لگی ہے ۔ کچھ کھانے کو دو تو کھا بھی لیتے ہیں لیکن جب تک  آپ ان کی جھولی میں کچھ نہیں ڈالتے ، یہ آپ کو  اپنے گندے  ہاتھوں  سے چھو تے رہتے ہیں ، یہ سب ’سفید پوشوں‘ کی ٹریننگ کا نتیجہ ہو تا ہے ۔ چند سال پہلے کرلا ٹرمنس پر ایک ایسا ہی بچہ ایک مسافر کو چھوچھوکر بھیک مانگ رہا تھا ، کچھ بول نہیں رہا تھا ، گونگا ہونے کا ناٹک کررہا تھا ،  ایک تو صبح  کا وقت تھا  ،  دوسرے اس مسافر کی ٹرین چھوٹنے والی تھی ، وہ سامان سیٹ کر رہا ہے ،  بچے کی اس حرکت پر  وہ آپے سے باہر ہو گیا اور ایک طمانچہ رسید کردیا، اس طمانچے کی بعد اس کی زبان کھلی اور اس نے یہ راز اگل دیا کہ وہ دس بار’ ڈونگری کے چلڈرن ہوم ‘ جا چکا ہے ، ہمیشہ اس کا مالک آتا ہے اور چھڑ اکر لے جاتا ہے۔  ایسے ہی کتنے ’بچپن‘ آپ کو مدد کیلئے پکار رہے  ہیں، کیا آپ سن رہےہیں ؟

صدائے وقت بشکریہ حمزہ فضل اصلاحی.
۔۔۔۔۔۔۔۔. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔