Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 9, 2018

مزار جگر پر حاضری۔


۔   از مولاناسراج ہاشمی
          جنرل سکریٹری
جمعیتہ علماءسلطان پور(یوپی)
. . . . . . . . . . . . .  . . . . . . . . . . . . .  
صدائے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
•اپنے عہد کے مشہور ومعروف شاعر جناب اصغر گونڈویؒ کے دیار اور جگر مرادآبادیؒ کی آرام گاہ پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔
گونڈہ شہر میں واقع مشہوردینی درسگاہ مدرسہ فرقانیہ کے مہتمم مولانا عظیم اللہ قاسمی اورپرسنپل مفتی نعمت اللہ قاسمی نے اپنےادارہ میں پرتپاک استقبال کے ساتھ شاندار ضیافت فرمائی!
شہر گونڈہ کے قلب میں واقع رئیس المتغزلین حضرت جگرؔ مرادآبادی کے مزار پر مفتی ابرہیم قاسمی سابق مدیر"نشان راہ"شمس الحق اور محمدنعمان خان کے ہمراہ حاضری ہوئی ـ

جگرؔ مرادآبادی کا اصل نام شیخ محمد سکندر تھا، مگر انہوں نے اسے متعارف نہیں کیا۔ ان کی پیدائش  6 اپریل  1890 کو مرادآباد میں ہوئی۔
جگر مرادآبادی صرف ایک شاعر ہی نہیں تھے، بلکہ کئی قابلِ ذکر خصوصیات ان کی شخصیت میں نمایاں تھیں۔

ان کے اشعار میں سوز وگداز  سر مستی وشادابی  اور وجد کی کیفیت ملتی ہے ۔
انہوں نے فکر وخیال کی ہمہ گیریت اور اپنی شخصیت کی سحر انگیزی کے باعث اردو ادب میں نمایاں مقام حاصل کیا تھا، جس کی وجہ سے عالمی شاعر بھی بن گئے۔
انہیں تاجدار سخن  "شہنشاہ تغزل "جیسے خطابات سے بھی نوازاگیا۔ ان کے کلام کی پختگی اور ہمہ گیری مسلم تھی

جگر ؔ ؒ،بچپن ہی میں یتیم ہوگئے، کمسنی ہی میں شفقت پدری سے محروم ہوگئے تھے۔ ان کا بچپن وعنفوان شباب  مشکلوں میں گزرا ۔ جس کی وجہ سے اعلٰی تعلیم حاصل نہ کر سکے،  جگرؔ نے حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے شہر آگرہ میں ایک عینک کی دکان کھولی جس کو ذریعہ معاش بنالیا۔

جگرصاحب، ؔ  انتہائی خلیق ملنسار اور وضع دار شخص تھے۔خلوص ومحبت ان کی شاعری کا محور ومرکز رہی۔ ان کا یہ شعر آج بھی زبان زدِ خاص و عام ہے:

ان کاجوکام ہےوہ اہلِ سیاست جانیں
میراپیغام محبت ہےجہاں تک پہونچے

ابتداء میں ان کی شاعری  شراب وشباب کی سر مستی، حسن کی  رعنائی، محبوب کی زلفوں کے پیچ وخم کی گرد گھومتی رہتی تھی۔
تبھی تو انہوں نے کہا تھا:

اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے
تو پھر یہ کیسے کٹی زندگی کہاں گزرے

پھر  1919ء میں  جگر کی ملاقات اس عہد کے بزرگ شاعر  اصغرؔ گونڈوی سے ہوتی ہے۔ 
اصغر گونڈوی نے جگر کو روحانی طور پر اپنے آپ سے منسلک کر لیا۔
جگرؔ کی شخصیت کے جو تعمیری عناصر وجود میں آئے تھے  وہ اصغر گونڈوی کے فیضان کا اثر تھا۔
جگرؔ نے اصغرؔ کے انداز فکر کی تقلید کی، مگر شاعری میں  جگرؔ  اور اصغرؔ  دونوں الگ الگ فکر وخیال کے مالک تھے۔

جگر کی شاعری عجیب کیفیت کی ہوتی تھی۔
سامعین کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شعر ان پر نازل ہورہا ہے۔
شعر ترنم سے پڑھا کرتے تھے ۔ آواز میں ایسا جادو اور ایسی کشش تھی کہ سامعین تھوڑی دیر کے لیے صرف جگر کے ہوجاتے تھے اور دنیا ومافیھا سے بے خبر ہوجاتے تھے۔

جگر نے اپنے عہد کے تمام اساتذہ سخن سے فیض حاصل کیا تھا۔

جگر ؔ نے سب سے پہلے فارسی میں غزل لکھی تھی، لیکن بعد میں چل کر اردو شاعری کی طرف دل وجان سے متوجہ ہوگئے، پھر  اس عہد کے مشہور شاعر  داغؔ دہلوی  سے اصلاح بھی لی۔

کبھی کبھی جگر کی شاعری سے یہ احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے  مومنؔ  سے استفادہ کیا ہے
جیسے:

وہ ہمارے قریب ہوتے ہیں
جب ہمارا پتہ نہیں ہوتا

جگرؔ نے اردو غزل کی صالح روایات کو جذب کر کے انہیں ایک لطیف تبسم  اور دلکش رمز بنا دیا ہے۔
جگر کی غزلیہ شاعری نے معنی کی وسیع دنیا سمو دی ہے۔ ان کی غزلوں میں ان کے مخصوص تصورات ایک منفرد نغمے میں گھل مل کئے ہیں۔

جگر مرادآبادی نے عمر کے آخری ایام اصغر گونڈوی کے دیار  گونڈہ میں گزارے۔
یہ شہنشاہ تغزل   9 ستمبر  1960ء کو ہمیشہ کے لئے  سوگیا

جان کرمنجملہ خاصان میخانہ مجھے
مدتوں رویاکریں گےجام وپیمانہ مجھے

واپسی پر یہ دیکھ کر بڑا ملال ہوا کہ اردو شاعری کے شہنشاہ کہے جانے والے کی قبر محفوظ نہیں ہے۔
مزار جگر کے اندرونی حصے میں بے لگام جانور داخل ہو جاتے ہیں۔
چاروں طرف گندگیاں پھیلی ہوئی تھیں ،گوبر کا انبار تھا۔
لہذا حکومتی اہلکاروں سے گزارش کی جاتی ہے کہ اس طرف توجہ دیں۔
اردو ادب کو عالمی شہرت دینے والے اس شاعر کے مزار کے مناسب حفاظتی انتظامات کئے جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔