Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, September 14, 2018

ایک معروف کالم نویس پر دلچسپ تبصرہ۔

صدائے وقت بشکریہ توقیر بدر القاسمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
تحریر یوسف سراج۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاویدچودھری_صاحب_نے_صحیح_بخاری کی ایک حدیث کے متعلق فرمایا، وہ ضعیف ہے۔ مجھے سخت حیرت ہوئی۔ احادیث کو صحیح اور ضعیف کہنے کا فن ایک مشکل ترین فن ہے، ہر عالم و مفتی بھی اس پر بات نہیں کر سکتا۔ بہت کم اور بہت خاص لوگ اس جگر کاری کی اہلیت لاتے اور محنت کر پاتے ہیں ۔ مثلا تدوین حدیث  کے سنہرے دور کے بعد چند ہی نام اس حوالے سے سامنے آ سکے۔ آخری بڑا نام محدث ناصرالدین البانی صاحب کا تھا۔ حیرت سے سوچنا پڑا کہ معاملہ اگر یوں ہے تو آخر جاوید چودھری صاحب جیسا ایک محض صحافی کیسے کسی حدیث کو ضعیف کہہ سکتا ہے؟
معلوم ہوا، وہ کہتے ہیں ان کے جاننے والے کچھ لوگ کلونجی کھانے سے بلڈ پریشر کے مریض بن گئے!
مگر جاوید چودھری کیسے طے کر سکتے ہیں کہ یہ بلڈ پریشر کلونجی سے ہوا؟
وہ ڈاکٹر ہیں نہ سائنسدان۔ جبکہ کسی چیز کو کسی بیماری کی وجہ بتانا تو بڑی طویل اور ہمہ جہت سائٹیفک تحقیق کا متقاضی ہے۔ چلیے ان پڑھوں کی طرح تکا ہی لگانا ہو تو جاننا چاہئے کیا اس دوران سوائے کلونجی کے ان مریضوں نے کچھ اور نہ کھایا تھا؟
اور پھر ۔۔ کیا ان چند لوگوں کے علاوہ بھی دنیا بھر کے بلڈ پریشر کے تمام تر مریض کلونجی ہی کھاتے ہوئے اس مرض کا شکار ہوئے؟
اچھا چھورئیے دو واقعات سنیے۔
1- ایک شخص کشتی میں بیٹھا ، دریا کی سیر کو نکلا۔ دورانِ سیر وقت گزاری کے لیے وہ ملاح سے بات کرنے لگا۔ پوچھنے لگا،
تمھارے والد کیسے مرے؟
ملاح نے کہا ، کشتی میں!
پوچھا، دادا؟
کہا کشتی میں؟
پوچھا ، پردادا؟
کہا، کشتی میں!
مسافر کہنے لگا، اتنے لوگ تمھارے کشتی میں مر گئے، تم یہ کشتی چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟
ملاح نے اس محقق کی بات سنی تو اس کی ساری قابلیت سمجھ گیا۔
کہنے لگا، اچھا مجھے چھوڑو تم یہ بتاؤ تمھارے باپ دادا کہاں مرے؟
کہنے لگا، چارپائی پر۔
ملاح نے کہا، تب تو یقینا تم نے چارپائی پر سونا چھوڑ دیا ہوگا؟
2- سائنس کے ایک طالب علم کو استاد کی یہ بات پسند آگئی کہ ہمیں سائنس میں محنت کی ضرورت ہے۔ اس نے چاہا مینڈک پر کچھ تجربہ کیا جائے۔ اس نے مینڈک پکڑا، آپریشن تھیٹر میں لٹایا۔ سیٹی پکڑی اور مینڈک کے پاس زور سے بجا دی۔ ظاہر ہے اس ناگہانی آفت پر مینڈک پوری قوت سے اچھل پڑا۔ اس نے کچھ سوچا اور مینڈک کی ایک ٹانگ کاٹ دی۔ پھر سیٹی بجائی تو مینڈک اچھلا مگر ایک ٹانگ پر اور پہلے سے کم۔ اس نے نشتر پکڑا اور دوسری ٹانگ بھی کاٹ دی۔ اب کے سیٹی بجائی تو مینڈک اچھل نہ سکا۔ کیسے اچھلتا، دونوں ٹانگیں تو کٹ چکی تھیں۔
اس محقق صاحب نے نوٹ بک پکڑی اور اس میں اپنے تجربے کا نتیجہ کچھ یوں تحریر فرمایا۔
مینڈک کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی جائیں تو وہ بہرہ ہو جاتا ہے۔
جاوید چودھری صاحب کو چاہیے، وہ بس کالم لکھیں۔ باقی میدانوں میں تحقیق و تجربہ کر کے مندرجہ بالا واقعات جیسے نتائج پیدا کرنا چھوڑ دیں۔  یہ دراصل انھی کا کام ہے، جن کا یہ کام ہے۔
وگرنہ بخاری نے کیا ضعیف ہونا، خود چودھری صاحب اپنا کالم ضعیف کر بیٹھیں گے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
نوٹ؛؛ ادارہ صدائے وقت کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔