Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, September 11, 2018

مودی یُگ،الارم کی گھنٹی۔ڈاکٹر عزیز برنی۔


تحریر ڈاکٹر عزیز برنی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .   
صدائے وقت۔(ڈاکٹر شرف الدین اعظمی)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
حالات حاضرہ پر لکھنا ہے مجھے ہر بات بیتے ہوئے کل سے شروع کرنی ہے کیونکہ قوم کو آنیوالے کل کی طرف متوجع کرنا ہے ۔قبل اس کے کہ ہم تاریخ کے دامن میں جھانک کر دیکھیں، آو ذرا پہلے اپنے دامن میں جھانک کر دیکھ لیں۔وہ قوم جس نے سات سو برس ہندوستان پر حکومت کی ،وہ قوم جس نے 190 سال انگریزوں کی غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالا اور ہندوستان کو آزادی سے ہمکنار کیا، وہ قوم جس نے آزادی کے بعد 70 برس تک کانگریس کو، دیگر سیکولر سرکاروں کو اپنے ووٹ کی طاقت سے اقتدار بخشا، آج وہ سیاسی اعتبار سے بے حیثیت کیوں ہو گئی۔اس کا ووٹ بے معنی کیوں ہو گیا؟ ہماری واپسی کیسے ممکن ہے۔کیا آر ایس ایس اور بی جے پی حکومت کی محض تنقید کر دینے سے ؟ نہیں ؟ کون نہیں جانتا آر ایس ایس کیا ہے اس کا مقصد کیا ہے؟ ایسا نہ ہوتا تو پنڈت نہرو نے آر ایس ایس پر پابندی نہ لگائی ہوتی۔
شہید ہیمنت کر کرے نے آر ایس ایس کے منصوبوں کو ایک تاریخی حقیقت کی شکل میں  منظر عام پر ۔نہ لایا ہوتا۔، ایس ایم مشرف نے "ہو کلڈ کرکرے"(who killed karkare). نہ لکھی ہوتی،عزیز برنی نے "  آر ایس ایس کی سازش" کے عنوان سے 800 صفحات پر مبنی آر ایس ایس کے وجود  میں آنے سے لیکر ہندو راشٹر کے منصوبے تک کی سوچ اور پلاننگ کو قلم بند نہ کیا ہوتا اور اسکی سزا میں میرے قلم کی موت نہ ہوئی ہوتی۔میں خود گمنامی کے اندھیروں میں نہ کھو گیا ہوتا۔
بات ذاتی نہیں ،یہ دنیا تو فانی ہے سبکو ایکدن اندھیروں میں کیا زمین کے نیچے مٹی کے آغوش میں سما جانا ہے۔تو میں کیا اور میری حیثیت کیا؟ تاہم آج پھر میں اپنی تمام تر توانائی کو سمیٹ کر کچھ لکھنا چاہتا ہوں ،کچھ کہنا چاہتا ہوں تو یہ میرے لئے میرے وجود کی جنگ نہیں،میری قوم کے وجود کی جنگ ہے۔میرے ملک کے وجود کی جنگ ہے،ہندوستان کے آئین کے تحفظ کی جنگ ہے ۔سیکولرزم میں ہی قوم و ملک کی بقا ہے۔اس سچ کو زبان زدو عام کرنے کی جنگ ہے۔تمام ہندوستانیوں کے ذہنوں میں پیوست کر دینے کی جنگ ہے۔۔اپنی سیاسی قیادت کو با اثر،با حیثیت بنانے کی جنگ ہے۔اقتدار میں حصے داری کی جنگ ہے ۔قوم میں ہاردک پٹیل، جگنیش موانی،کنھیا کمار اور چندر شیکھر جیسے نو جوانوں کو سامنے لانے کی جنگ ہے۔میں پر امید ہوں اے ایم یو پریسیڈنٹ مشکور عثمانی،جے این یو کے عمر خالد زمینی سطح پر سیاسی بیداری کی جنگ لڑ رہے پروفیسر فیروز سے، آرمی کے اہم عہدوں سے ریٹائرمنٹ لیکرتعلیمی بیداری کی مہم میں لگے مسٹر عثمانی سے،اپنے سیاسی وجود کو اپنی طاقت پر تسلیم کرنے والے سابق میئر میرٹھ اور ممبر پارلیمنٹ حاجی شاہد اخلاق سے،وہ سب متحد ہوکر اپنی قوم کے حق کے لئیے ایک پلیٹ فارم پر نہیں آتے تو رہنے دیں انھیں اپنے سیاسی وجود کی جنگ۔۔۔اور آپ سامنے لائیں ایک نئی اور نوجوان قیادت۔۔کچھ نام اور چہرے میں نے سامنے رکھے،کچھ آپ کے ذہن میں ہوں گے ۔کریں پہل۔بیٹھیں سب کو لیکر ایک ساتھ۔ انشاء اللہ  بہتر نتیجے نکلیں گے۔مگر آپ سب صرف پڑھنے کی حد تک محدود نہ رہیں اپنی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی تمام تر مایوسیوں کو ترک کر کے ایک نئے جوش و ولولے کے ساتھ ایک نئی تاریخ رقم کرنے کا عزم کریں تو کافی ہے یہ تعداد۔زمانہ بدل گیا ہے سب سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس و فیس بک ہی تحریک ریشمی رومال کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔اور آپ سب 1857 کی طرح دور حاضر کے مجاہد ہوں گے۔