Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 2, 2018

ہاں میں راشد شاز ہوں۔

نازش ہما قاسمی کی تحریر۔
۔ ۔۔۔۔۔     ۔۔۔۔   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی ہاں! میں ہی پروفیسر راشد شاز ہوں۔ اسلامک اسکالر، قلم کار، مصنف ،صحافی، مفکر،دانشور، مختلف تہذیبوں کے درمیان ثقافتی بات چیت کےلیے مشہور عالمی تنظیم آئی ایس ای ایس سی او کا ایمبیسڈر ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا پڑھا ہوا لائق وفائق فرزند،برج کورس اور مرکز برائے فروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہند علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ڈائریکٹرہوں۔ ہاں میں وہی پروفیسرراشد شاز ہوں جسے لوگ ملحد، کافر، فاسق، زندیق اورگستاخ رسول کا لقب دے رہے ہیں ۔ میری پیدائش ۵؍فروری ۱۹۶۳ کو بہار کے مردم خیز ضلع دربھنگہ کی مشہور علمی و دینی بستی ’کمہرولی‘ کے ایک مشہور علمی خانوادے میں ہوئی۔ میرے چچا محمد حسنین سید جماعت اسلامی کے بانیوں میں سے تھے۔ جنہوں نے شہادت حق کی عظیم مثال قائم کی اور اس کے لیے ہمارے اہل خانہ نے جیل کی صعوبتیں تک برداشت کیں۔ میرے دو بیٹے ابراہیم اور محمد ہیں۔ میری اہلیہ کا نام کوثر فاطمہ ہے جو کہ جامعۃ الصالحات رامپور کی فاضلہ ہیں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شعبہ دینیات میں پی ایچ ڈی کرچکی ہیں۔ ابھی میرے ساتھ میرے مشن کو تقویت پہنچا رہی ہیں اور حقیقی معنوں میں ہم سفر ہیں۔ ان سے میرا نکاح مرکز نظام الدین میں سنت طریقے پر ہوا۔ میری ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں میں ہوئی پھر میں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، عربی واسلامی تعلیمات میں مہارت حاصل کرنے کے لئے سوڈان کا سفر کیا۔
ہاں میں وہی راشد شاز ہوں جس نے بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں کے جلتے مکان، لٹتی عصمتوں، بلبلاتے وچیختے بچوں کو دیکھ کر ایک کڑھن محسوس کی اور اس کڑھن کے سدباب کےلیے ، ظلم سے نجات دلانے کےلیے ، ظلم کے خلاف سینہ سپر ہونے کےلیے ۱۹۹۳ میں ملی پارلیمنٹ کی بنیاد ڈالی اور اس کےلیے بیرون ممالک کا سفر کیا اور ہندوستانی مسلمانوں پر ہورہے مظالم سے بیرون ممالک کے دانشوران کو آگاہ کیا اور میں نے حتی المقدور مسلمانوں کو اس سانحے سے ابھرنے میں معاون بننے کی کوشش کی؛ لیکن قائدینِ وقت نے میرے آگے بڑھنے کے تمام راستوں کو مسدود کردیا کہ کہیں ہماری قیادت نہ چلی جائے۔ مجھے ملی پارلیمنٹ کے قیام کے وقت بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں میں شمولیت کے آفر آئے؛ لیکن میں نے اپنے ضمیر کاسودا کرنا گوارہ نہیں کیا ۔ چاہتا تو شمولیت اختیار کرکے اپنی دنیا سنوار سکتا تھا؛ لیکن مجھے فکر ان پچیس کروڑ مسلمانوں کی تھی جو بے آسرا وبے سہارا تھے جو ٹکٹکی باندھے منتظر تھے کہ کوئی قیادت کرے اور اس بھنور سے نکالے؛ لیکن کسی نے کوشش نہیں کی اور میں نے کوشش کی تو مجھے ہر طرح سے مجبور کردیاگیا ،میرے قدم روک دئیے گئے۔  ہاں میں وہی راشد شاز ہوں جس نے ۱۹۹۴ میں ہندوستانی مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کےلیے اور انہیں ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کےلیے اور ان کی آواز ایوان تک پہنچانے کےلیے ’ملی ٹائمز انٹرنیشنل ‘ کی بنیاد ڈالی۔ ہاں میں وہی راشد شاز ہوں جس کا کسی زمانے میں مفکراسلام حضرت مولانا علی میاں ندویؒ سے گہرا قلبی تعلق رہا ہے اور میں نے ان سے بہت استفادہ کیا ہے۔ میری کئی کتابیں منظر عام پر آکر شہرتِ عام وبقائے دوام حاصل کرچکی ہیں۔ جن میں خاص کر ’’ادراک  زوال امت‘‘ ،’’ہم کیوں قیادت سے معزول ہوئے‘‘؟ ، ’’کتاب العروج‘‘ ، ’’ہندوستانی مسلمان۔ایام گم گشتہ کے پچاس سال‘‘  اور دو سفر نامے ’’لستم پوخ‘‘اور ’’کودرا‘‘ہیں۔ ہاں میں وہی راشد شاز ہوں جسکے نزدیک جماعت علماء کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں، میں علماء کرام کو کچھ نہیں سمجھتا ، میں مسالک اربعہ کو بھی نہیں مانتا؛ بلکہ میں خود اجتہاد کرکے اپنے مسلک پر عمل پیرا ہوں، میں کسی کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیتا ہوں؛ بلکہ سوال کرنے والے کو دوسرے ضمنی سوالات میں الجھاکر پہلے سوال کا جواب دئے بغیر خاموش کرنے میں مجھے مہارت تامہ حاصل ہے، میں سائل کو اسکے سوال کا جواب دئے بغیر مزید مطالعے کی تلقین کرتا ہوں، شاید میں خود کو دوسروں سے زیادہ پڑھا لکھا سمجھتا ہوں، میں اپنے موحد عیسائی دوست کو رسول عربی پر ایمان لائے بغیر مسلمان مانتا ہوں اور ان کے جنت میں جانے کی ضمانت دیتا ہوں اور ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ وہ اگر محمد عربی پر ایمان نہ لائے اور سابقہ دین پر قائم ہیں تو ان کی بخشش ہوجائے گی۔ میرے نزدیک نام نہاد مسلمانوں کے گروہ شیعہ وغیرہ بھی مومن کامل ہیں۔ ہاں میں وہی راشد شاز ہوں جس کے نزدیک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا لازمی نہیں ہے ’’امم سابقہ کے ادیان پر عمل پیرا ایسے لوگ بھی جو آپ ﷺ پر ایمان نہیں لائے"امت مسلمہ کے رکن رکین ہیں‘‘ ۔  (اسلام، مسلم ذہن کی تشکیل جدید) ۔ میرا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’قرآن کے علاوہ کوئی وحی آپ ﷺ پر نازل نہیں ہوتی تھی‘‘۔ (ادراک زوال امت)۔ اور میرا یہ نظریہ ہے کہ ’’رسول اکرم ﷺ  کی احادیث کو تحریری طور پر مدون کرنا ممنوع ہے‘‘۔(ادراک،اول)میں حد سے تجاوز کرکے یہ بھی کہتا ہوں کہ ’’توحید انسانی برادری کو ایک لڑی میں پروتی ہے، لیکن نبی کا حوالہ انسانوں کو بانٹتا ہے‘‘۔ (ادراک ، دوم)
ہاں میں وہی راشد شاز ہوں جس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے زیر نگرانی برج کورس کے ذریعے مدارس اسلامیہ کے فارغین کو نئی سوچ فراہم کی اور ایک فکر دی کہ ہندوستان میں اپنا مستقبل کس طرح درست کرسکتے ہیں اور کس طرح قومی دھارے میں شامل ہوکر ملک وملت کی خدمت کرسکتے ہیں۔ ہاں میں وہی راشد شاز ہوں جس کی کچھ کتابوں کے اقتباسات کو سیاق وسباق سے کاٹنے کے بعد جو غلط فہمیاں پیدا ہوئیں ان سے مسلمانوں کا ایک گروہ مجھے فاسق وفاجر قرار دے رہا ہے تو ایک گروہ میری حمایت کررہا ہے۔اس طرح مسلمانوں کے دونوں گروہ فروعی مسائل میں الجھ کر اصل سے اپنا دھیان ہٹاچکے ہیں اور اس میں اپنی انرجی ضائع کررہے ہیں جبکہ میری تحریر کا مقصد بالکل بھی فروعی مسائل کو چھیڑنا نہیں ہے؛ بلکہ میری تحریروں کا مقصد قوم کے زوال کے اسباب دریافت کرنا ہے اور صحیح منہج طے کرنا ہے۔ اور اسی فکر کو لے کر میں نے اسلام کا مجموعی طور پر مطالعہ کیا اور اپنے مطالعے کا نچوڑ قرآن، حدیث ، فقہ، تصوف وغیرہ کے حقیقی معنوں کے دریافت میں نقل کیا ۔ میری تحریر کوئی منزل من اللہ نہیں ہے اس میں بہت سی غلطیاں ہوسکتی ہیں؛ لیکن ان غلطیوں میں الجھ کر اصل مقصد کو فوت کردینا میری تحریر کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ میری تحریروں میں ہوئی غلطیوں کی نشاندہی کی جاتی اور اسے صحیح ڈھنگ سے مدلل کرکے آگے بڑھنے کے راستے تلاش کئے جاتے، نہ کہ مجھے کافروزندیق اور معصوموں کے ذہن سے کھلواڑ کرنے والاکہاجاتا۔
میرا مقصد مسلمانوں میں گروہ بندی کرنا ہرگز نہیں؛ بلکہ مسلمانوں کو ایک سوچ دینا ہے ایک فکر دینی ہے، جس سے وہ اپنے مستقل کے تئیں فکر مند ہوسکیں اور یہ سوچ سکیں کہ اگر ہم زوال کی طرف جارہے ہیں تو اس کے اسباب کیا ہیں اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ مسلمان اس حالت میں کیا کریں؟ کیا وہی برسوں پرانی روش اپنائیں؟ ، کیا ان ہی جبہ ودستار کے آگے سرجھکائیں؟ اور ان کی عزت وناموس وانا کی خاطر قربانیاں دیں؟۔
صدائے وقت۔