Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, October 2, 2018

ناصبیت، ایک گمراہ کن فکر۔


تحری/ سید متین احمد۔
بشکریہ ابو نافع اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  
محمود عباسی کے گمراہ کن افکار پر روایتی مذہبی اداروں کے علاوہ دیگر اداروں سے وابستہ اہل علم کا ردعمل
‏. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
بعض دوست بڑے جزم سے یہ باور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ محمود عباسی کے افکار کی مخالفت بس شیعہ پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے جس سے اہل سنت بھی متاثر ہیں( بلکہ اس زہریلے فتنہ کے نتیجہ میں اب امت کے فقہا، محدثین اور صوفیہ "سبائیت "زدگی (درست لفظ "سبئیت" ہونا چاہیے ) کی مجرمانہ عدالت میں کھڑے ہیں، لیکن اس پر دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث علما [جیسے قاضی اطہر مبارک پوری (دیوبند )، مولانا شفیع اوکاڑوی (بریلوی ) ، مولانا عبد اللہ دامانوی (اہل حدیث ) ] کے علاوہ غیر روایتی نوعیت کے اداروں سے وابستہ اداروں نے بھی سخت نقد کیا اور مصنف کے افکار کو گمراہ کن قرار دیا. بات محض تاریخ کی ہوتی یا حضرت معاویہ رض جیسے مظلوم صحابہ کی مظلومیت کی جائز تلافی کی ہوتی  تو ایسی باتیں سرے سے قابل التفات ہی نہ ہوتیں کہ علمائے امت اس سے پہلے بھی تاریخ کے رطب و یابس کو نقد کی کسوٹی پر پرکھتے رہے ہیں، نیز حضرت معاویہ رض کا دفاع بھی امت کے جلیل القدر بزرگ کرتے آئے ہیں، یہاں مسئلہ یہ ہوا کہ ایک مظلومیت کی تلافی کے جواب میں دوسری بزرگ ترین شخصیات سیدنا علی و حسنین رض کی تحقیر و تنقیص سے انہیں مظلوم بنا دیا گیا اور یہی چیز مسلمانوں کے جذبات کے زخمی ہونے کا سبب بنی اور اب بعض اردو خواں یہی چیزیں پڑھ کر مرعوب کرنے کے لیے موٹی موٹی کتابوں کے حوالے دیتے ہیں کیونکہ ریفرنس تو ساتھ لکھے ہوتے ہیں. راقم کی نظر سے چونکہ ایسے بد بخت لوگوں کی کتابیں بھی گزر چکی ہیں جن میں حضرت علی رض کو معاذ اللہ کافر اور منافق تک کہا گیا جو دینی لحاظ سے حد درجہ سنگین بات ہے اس لیے اس پروان چڑھنے والی جدید ناصبیت پر کچھ نہ کچھ لکھنا ناگزیر سمجھتا ہوں. حضرات صحابہ رض اللہ کی محبوب ہستیاں ہیں، ہمارے دفاع کی انہیں کوئی ضرورت نہیں لیکن اللہ کے ہاں اس کی مسئولیت بہرحال ہے.
یہاں دار المصنفین اعظم گڑھ ، ندوۃ المصنفین دہلی اور ادارہ ثقافت اسلامیہ ‏‎ ‎لاہور کے مصنف کے افکار پر تبصرے پیش کیے جاتے ہیں.
‏. . . .
شاہ معین الدین ندوی رح لکھتے ہیں : اگر مصنف غیر جانبدار اور اعتدال و توازن کے ساتھ ان واقعات کا جائزہ لیتے تو کم از کم کسی اہل علم کو ان پر اعتراض کا موقع نہ ملتا. مگر وہ بنی امیہ خصوصا حضرت معاویہ رض اور یزید کی مدافعت اور حمایت میں اتنا آگے بڑھ گئے ہیں کہ حضرت علی رض اور حضرت امام حسین رض کو ملزم بنانے میں باک نہیں کیا ہے. انھوں نے واقعات پر جس طرح بحث کی ہے اور اس سے جو نتائج نکالے ہیں، اس سے حضرت علی رض اور امام حسین رض خطا کار . . نظر آتے ہیں. " ( معارف، دسمبر 1959 )
‏. . . .
مولانا سعید احمد اکبر آبادی رح نے لکھا (اور مولانا اکبر آبادی کی سیاسی فکر کا پس منظر اور رخ پیش نظر رہنا چاہیے. ) :
‏"ہمارا تاثر یہ ہے کہ مصنف کا انداز فکر اور انداز تحریر جارحانہ ہیں. " مصنف کے طے شدہ ذہن کے نتائج پر لکھا : " یہ سب چیزیں اس بات کی غمازی کر رہی ہیں کہ مصنف کسی خاص دائمی تحریک کے زیر اثر پہلے سے ایک خاص خیال قائم کر چکا ہے اور پھر اس کی تائید کے لیے مواد تلاش کر رہا ہے. یعنی اس نے تحقیق کے میدان میں قدم غیر جانبدار ہو کر نہیں رکھا . " (برہان دہلی ، نومبر 1959 )
‏. . . .
ادارہ ثقافت اسلامیہ ایک روشن خیال تھنک ٹینک ہے جس پر روایتی مذہبیت کی چھاپ نہیں . اس کے مجلے "ثقافت " (فروری 1960 ) نے لکھا : "جو لوگ اسے تحقیق کا شاہکار قرار دے رہے ہیں انھوں نے یہ نہ سوچا کہ جو شخص آنکھیں بند کر کے ہر تاریخ کو جھوٹ کا طومار قرار دے سکتا ہے، جو ہر بڑے مصنف پر کم فہمی ، تعصب اور نادانی کا الزام لگا سکتا ہے لیکن اپنے مطلب کے حوالے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اسی جھوٹ کے طومار سے دیتا ہے، جو اپنے مقصد کے خلاف تمام مستند کتب تاریخ کو غلط قرار دیتا ہے لیکن حسب ضرورت آغا خانی تک کے حوالے دینے سے نہیں چوکتا، اس کی تحقیقات کو کس طرح درست مانا جا سکتا ہے؟ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ جو شخص لارنس کو محقق کا خطاب دے سکتا ہے وہ خود کس قسم کا محقق ہو گا؟ کون نہیں جانتا کہ لارنس ایک دریدہ دہن، یاوہ گو اور شاتم رسول مستشرق ہے.
‏. . .
افسوس ہے کہ مستشرقین کی تحریک اور اس کے زیر اثر  لوکل متشککین کے منہج پر چل کر "دفاع صحابہ " کے خوش نما عنوان نے اہل سنت کے منہج اعتدال میں رخنہ پیدا کر دیا اور اب اس کا نتیجہ ہے کہ بعض مصنفین امام طبری جیسے  امت کے جلیل القدر مفسرین اور امام اسحاق جیسے مؤسس سیرت نگاری کے خلاف کتابیں لکھ کر انہیں مجرمین کی عدالت میں کھڑے کر چکے ہیں. اہل مذہب اس کو سوچیں کہ خوش نما عنوانات کے زیر اثر کس طرح استشراق کا ایجنڈا پورا ہو رہا ہے! کیا یہ امت مقام صحابہ سے نا آشنا رہی ہے جس کی تلافی آ کر بیسویں صدی کے اردو نگار مصنفین نے کی؟