Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, October 4, 2018

ارتداد کی سرخ آندھیاں ، اسبا ب و علاج۔

تحریر/ محمد عثمان ندوی/ بشکریہ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ھندوستانی مسلم معاشرہ فی زمانہ ارتداد و دین بیزاری کی سرخ آندھیوں کا مقابلہ کررھا ھے،حال ھی میں سانحہ باغپت جس نے ھر ذی شعور کو جھنجوڑا پیش آیا،اگرچہ یہ ھندوستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پھلا واقعہ ھے کہ اتنی بڑی تعداد نے اجتماعی طور پر اسلام کی بجائے ھندو دیو مالائ نظام کوقبول کیا،جس میں کوئ حسن و کشش اور پیغام حیات نھیں ھے،لیکن ایسے انفرادی واقعات بے شمار ھیں جن سے یہ پتہ چلتا ھے کہ ھندوستانی مسلم معاشرہ کا دین سے تعلق نھایت کمزور و ضعیف ھوگیا ھے،ھم اس موقع پر ان اسباب و محرکات کا جائزہ لیں گے،جو اس کا سبب بن رھے ھیں،لیکن قبل اس کے اسلام مخالف عناصر کی ھمہ جھت کوشش پر ایک ھلکی سی نظر ڈالیں گے
دین سے پھر جانا اور صراط مستقیم کو چھوڑ کر کسی اور ڈگر کو راہ گزر بنالینا،ارتداد کھلاتا ھے،اس اعتبار سے اگر ھم غور کریں تو ملک بھر میں بے شمار تنظیمیں ایسی مل جائینگی جو مسلمانوں کے عقائد و نظریات کو بگاڑنے کی کوسش کر رھی ھیں،ان میں بھت سی ایسی تنظیمیں بھی ھیں جو مسلم نام اور دین کے عنوان سے اس کار بد کو انجام دے رھی ھیں،آپ اس سلسلہ کی نمایاں تنظیموں میں،شکیل بن حنیف،قادیانیت اور شیعیت وغیرہ کا نام لے سکتے ھیں جو ملک بھر میں مسلم نوجوانوں کے عقائد پر شب خون ماررھے ھیں،ان تحریکات کے خلاف کچھ کام کھیں کھیں ھمارے علماء و ائمہ انجام بھی دیتے رھتے ھیں لیکن اس کی رفتار ایسی سست اور غیر حکیمانہ ھوتی ھے کہ مسآئل کاتدارک ھونے کی بجائے مزید مسآئل جنم لیتے ھیں،
ارتداد کی ایک اور زیادہ منظم و مرتب شکل وہ ھے جو ٹی وی چینل اور میڈیا کی طرف سے کی جارھی ھے،وہ لوگ جو الکٹرانک یا پرنٹ میڈیا کا ناقدانہ مطالعہ رکھتے ھیں وہ جانتے ھیں کہ ٹیوی چینل ڈسکشن کے نام پر تمام احکامات شرع پر سوالات کھڑے کرتے ھیں اور مسلمانوں کو مشکوک کرنے کی بڑی کامیاب کوسش کی جاتی ھے،اس کا ایک کامیاب تجربہ طلاق،حلالہ، قربانی،میوزک اور حقوق نسواں کے عنوان سے نشر کئے جانے والے پروگرامز میں ملاحظہ کیا ھوگا،ان چینلز کی اس خاموش دعوت سے اگرچہ لوگ مرتد نھیں ھوئے ھوں،لیکن مشکوک ضرور ھوئے ھیں،اسی طرح فلموں کےذریعہ بھی بسااوقات یہ کار بد انجام دیا جاتا ھے،اس سلسلہ میں کچھ سال قبل ریلیز ھونے والی فلم عشق زادے،اور ماضی قریب میں ریلیز ھوئ نکاح نامی فلم بطور نمونہ کے پیش کی جاسکتی ھے،عشق ماشاء اللہ جیسے بے شمار سیئرئل اور ڈرامہ اوراسی طرح وہ تمام افلام جن میں اسلام و اتنکواد کو ڈسکس کیا گیا ھے اسی منصوبہ کو پیش کرتی ھیں،
ارتداد کی ایک شکل وہ ھے جو نظام تعلیم اور نصاب میں تبدیلی کے ذریعہ پیش کی گئ ھے،اب اسکولی کتابیں لامذھب اور سیکولر نھیں رھیں بلکہ تاریخ کے نام پر ھندو دیومالائ نظام کو بچوں کے ذھن میں کوٹ کوٹ کر بھرا جاتا ھے،جب بچہ شروع سےھی ایسی مشرکانہ تعلیمات پڑھے گا تو، اس کے عقیدۂ توحید و رسالت کا کیا انجام ھوگا آپ تصور کر سکتے ھیں،اسی کے ساتھ سوریہ نمسکار،سرسوتی وندنا،اوربھارت ماتا کی پوجا جیسے پروگرام الگ ھیں،گیتاکو بطور مقدس کتاب اسکولوں میں داخل نصاب کرنے کی صرف باتیں نھیں بلکہ اس کا کامیاب تجربہ کیا جارھا ھے،اوراب عام مسلم بچے اسکول ٹائم کے بعد یھی شلوک گنگناتے رھتے ھیں،تاریخ کو مسخ کرکے مسلم حکمرانوں کو غاصب و ظالم ثابت کیا جارھا ھے،اورنگزیب، کو ملک دشمن جبکہ شیواجی جیسے باغیوں کو مھا پرش بتلایا جارھا ھے،جب بچے ایسے ماحول میں پروان چڑھیں گے تو ان کے دین و ایمان پر کیا اثرات مرتب ھونگے،؟تصور کئے جاسکتے ھیں،
اس سلسلہ میں کی جانے والی کوسشوں میں سب سے گھنونی،اور گھٹیا چال یہ ھے کہ مسلم لڑکیوں کو ورغلایا اور انھیں بھلا پھسلا کر ھندو لڑکوں سے شادی کرنے پر تیار کیا جا رھا ھے،اس سلسلہ میں آرایس ایس اور اسکی ذیلی تنظیمیں بھت بڑھ چڑھ کر حصہ لے رھی ھیں،اور اب یہ کوئ ڈھکی چھپی بات نھیں رہ گئ بلکہ ھندو تنظیمات کے ھرکارے اور آرایس ایس کے گماشتہ کھلے بندوں اس طرح کے اعلانات کررھے ھیں کہ جو ھندو لڑکا کسی مسلم لڑکی سے شادی کرے گا اس کی رھائش اور خرچہ کا بندوبست ھم کریں گے مزید انعامات سے الگ نوازیں گے،اس طرح کے اعلانات نے عام ھندو لڑکوں میں ایک قسم کی شھوانیت کو فروغ دیا ھے اب وہ اسکول و کالجز میں پڑھنے والی مسلم لڑکیوں کو پیسہ، موبائل و کار کا لالچ دے کر ورغلاتے ھیں اور دھیرے دھیرے انھیں لے کر فرار ھوجاتے ھیں،اس سلسلہ میں ایسے دلدوز واقعات سننے میں آتے ھیں کہ پیروں تلے زمین کھسک جاتی ھے
..............................اسباب و محرکات......................
اغیار کی یہ کوسشیں بھی اتنی ھی پرانی ھیں جتنا اسلام، اسلام کے ابتدائ دور کی تاریخ پڑھنے سے یہ واضح ھوجاتا ھے کہ اسلام دشمن عناصر نے شروع سے ھی اس طرح کی کوسشیں کی ھیں،ابوجھل ابولھب امیہ،اس کے نمائندہ،تھے جنھوں نے اپنی تمام تر توجھات اسی نقطۂ پر صرف کی کے کہ کوئ ایک مسلمان اسلام سے پھر جائے، لیکن تاریخ شھادت پیش کرتی ھے کہ کسی ایک نے بھی اپنے ایمان سے سودا نھیں کیا، حتی کہ سمیہ جیسی بوڑھی خاتون نے بھی جان کی قیمت پر اسلام بچایا، عشق و محبت، اور استقلال و پامردی کہ یہ نمونہ دور نبوی ھی تک محدود نھیں ھیں بلکہ ھر زمانہ میں اس کی بے شمار مثالیں مل جاتی ھیں،اب یھاں سوال یہ بنتا ھے کہ آخر ھمارے دور میں ھی لوگ اسلام سے اتنی آسانی سے کیوں مرتد ھورھے ھیں،جب کہ اسلام کی مقناطیسیت اور تب و تاب آج بھی اتنی ھی ھے جتنی کل تھی،دراصل اس کے مختلف اسباب ھیں،
۱)ضعف عقائد، : عقیدۂ اسلام سے ناواقفیت،اور توحید ربانی کی خوبیوں سے نا آشنائ،اس ارتداد کا سب سے بڑا سبب ھے، اور اس ناواقفیت کا سب سے بڑا سبب، اور اصل ذمدار ھمارے علماء کرام ھیں، دراصل انھوں نے عقیدہ کی اھمیت قوم کے سامنے واضح نھیں کی،اس سلسلہ میں تبلیغی احباب کی بھی بڑی کوتاھی رھی،انھوں نے یہ ملک گیر مھم چلائ کہ جمعہ کے خطابات چھ نمبر کے دائرہ میں ھی ھونگے،لھذا فضائل اعمال پر تو سیر حاصل گفتگو ھوئ لیکن عقائد وایمانیات کے موضوعات ھمیشہ تشنہ ھی رھے، اوران پر خاطر خواہ روشنی نھیں پڑسکی،لھذاوقت کی شدید ترین ضرورت ھے کہ علماء و ائمہ پر سے پابندی ھٹا لی جائے اور درپیش مسآئل پر منبر رسول سے کھل کر گفتگوھو،
۲)مسلمانوں کی اعلامی بے حیثیتی،اوپر بتایا گیا تھا کہ ارتداد کی ایک بڑی وجہ میڈیا کا دوغلا کردار ھے،لھذا  قوم کو اس کا بدل فراھم کردیا جائے،یعنی اپنے ٹی وی چینلز،اور نشریاتی ادرہ قائم کئے جائیں، تاکہ انسانیت کی خدمت کے ساتھ اسلام کی صاف و شفاف تصویر بھی پیش کی جائے،یہ اس قوم کے لئے کوئ مشکل کام نھیں ھے جو، ھزاروں یتیم خانہ،مدارس و مساجد اور دیگر رفاھی کاموں کی کفالت اپنے مخصوص فنڈ سے کررھی ھو،اگر ایک سال زکوۃ کا پیسہ اس کام میں ایمانداری سے لگادیا جائے تو دسیوں مسلم چینلز حق کی آواز بن جائیں،
۳)ارتداد کی وجوھات میں سے ایک مسلم،اسکول و کالجز،اور تعلیمی اداروں کی کمی ھے،لھذا اگر قوم ونسل کا ایمان بچانا ھے تو علماء ودانشوران قوم کو رجسٹرڈ ھائیر سیکینڈری اسکول ھر گاؤں ھر محلہ اور بستی میں پھیلانے پڑینگے تاکہ اغیار کے نظام ھاء باطل سے بچا جا سکے،یہ ضرورت بھی زکوۃ کے فنڈ سے انجام دی جاسکتی ھے،
۴)اس وقت کا ایک بڑا فتنہ مسلم.بچیوں کے مرتد ھونے اور اغیار کے ساتھ فرار ھونا ھے، اس کی بنیادی وجوھات کا تدارک کرنا اس وقت کا ایک عظیم تجدیدی کام ھے جس سے چشم پوشی و تغافل نھیں برتا جاسکتا،لھذا اس سلسلہ میں درج ذیل اقدام اٹھاکر مسئلہ کا حل کیا جاسکتا ھے،
۱)اسکول ،کالجز میں پڑھنے والی مسلم بچیوں سے ربط پیدا کرنا اور انھیں دین فطرت کی حسین تعلیمات سے روشناش کرانا،عقیدہ کی پختگی، اور ایمان کے کمالات سے باخبر کرنا،
۲)علماء و عالمات کی ایسی جماعتیں تشکیل دی جائیں جو وقتا فوقتا اسکول و کالجز کا دورہ کریں،اور پتہ لگائیں کے کوئ مسلم لڑکی کسی غیر مسلم لڑکے کہ رابطہ میں تو نھیں ھے،اگر ھے تو فورا اس کے گھر والوں کو مطلع کریں،اور اس لڑکی سے رابطہ کرکے اسے اس فعل کی شناعت سے باخبر کریں،
۳جگہ جگہ ورکشاپ لگائے جائیں جن میں علاقے کے مسلمان والدین کو جمع کرکے اس فتنہ سے آگاہ کیا جائے،انھیں سمجھایا جائے کہ بچیوں کو تنھا کھیں نہ جانے دیں،اگر وہ کھیں جاب کرتی ھیں تو والدین کو مسئلہ کی نزاکت سمجھا کر متنبہ کیا جائے، کسی کی نائٹ ڈیوٹی ھے تو اسے فورا چھوڑنے کی تاکید کریں اگر وہ اپنے عذر بیان کریں تو اس کے مصارف کا بوجھ چند خیر خواہ اٹھالیں،اور اس بات کو صیغۂ راز ھی میں رکھیں،والدین کو کسی بھی طرح اس بات پر ابھاریں کے بچیوں کو اسمارٹ فون نہ دیا جائے، اگر نہ مانے تو کم.ازکم انکے فیس بک ،واٹس ایپ اکاؤنٹ مسلسل چیک کرتے رھنے کی تاکید کریں،بچیوں کے اسکول و کالجز اور طالبات کے دینی مدارس کا جال گاؤں گاؤں بچھادیں،جھاں دینی و عصری دونوں تعلیم کا مضبوط و منظم نظام قائم کیا جائے،محلہ کے ذمدار افراد کو متبہ کریں کہ آپ کے یھاں کسی مشکوک آدمی کو داخل نہ ھونے دیں،اگر وئ منچلا باربار سمجھانے پر نہ مانے تو اس کی پٹائ کرکے پولس کے حوالے کردیا جائے،
اس طرح کی ھمہ جھت کوسش انجام.دی جائےگی تو،امید ھے کہ اس فتنہ کا سد باب کیا جاسکتا ھے، اللہ ھمیں ھمت و سلیقہ دے آمین،.....
محمد عثمان ندوی