Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, October 4, 2018

اپنی شناخت و اسلامی تعلیمات۔

تحریر / ارشاد احمد اعظمی/ بشکریہ صدائے وقت۔
------------------------------------------
اسلام پیارا دین ہے، اس کی خوبیوں کا ہر حقیقت پسند غیر جانبدار معترف ہے، گرچہ مسلمانوں کے بارے میں لوگوں کی رائے الگ ہے، مسلمان کی شناخت کیا ہونی چاہیے، یہ مسئلہ بہت اہم ہے، ہمارے کچھ دینی رہنماؤں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر مسلمان تعزیہ داری سے پہچانے جاتے ہیں تو ان کو اس سلسلے کو قائم کو رکھنا ہے، حالانکہ یہ خیال کچھ عجیب سا لگتا ہے۔
کچھ لوگ مسلمانوں کی شناخت کے لئے چار شادیاں، تین طلاق اور جہاد جیسے مسائل کو آگے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ ضرورت کے تحت اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ضرور ہے لیکن ہمارے ملک ہندوستان میں ایسے مسلمانوں کو ڈھونڈنا پڑے گا جن کی ایک سے زائد بیویاں ہیں، جبکہ دوسروں کے گھروں میں کئی کئی عورتیں آسانی سے مل جائیں گی، اسی طرح طلاق کے مسئلہ کو بد خواہی کی نیت سے اچھالا جاتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ طلاق مبغوض ترین شیء ہے جس کی انتہائی ضرورت کے تحت اجازت دی گئی ہے، اور جہاد کیا ہے؟ اس کو سمجھنے میں ہر سطح پر غلطیاں کی جاتی ہیں، جہاد کا معنی جنگ اور جان لیوا ہتھیاروں کا استعمال سمجھ لیا جاتا ہے، جبکہ جہاد کا معنی بہت وسیع ہے، اور ہتھیار کا استعمال اس کی ایک بہت چھوٹی شکل ہے، جہاد کا حق اس معنی میں صرف حکومتوں کو حاصل ہے، افراد وجماعتون کو قطعا نہیں، لیکن بدخواہ وکینہ پرور اس چیز کو پوری طاقت کے ساتھ زور و شور سے اٹھاتے رہتے ہیں ۔
مختلف قومیں اپنی پہچان بنانے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں، اور ایسی ایسی چیزوں کو شناخت کے طور پر پیش کرتی ہیں جن میں بظاہر کوئی خوبی اور جاذبیت نظر نہیں آتی، بین الاقوامی اسٹیج اور غیرملکی اسفار پر خاص قسم کے پہناوے اور مظہر کا اہتمام کیا جاتا ہے، ساتھ ہی اور بھی بہت ساری چیزیں تشہیر کی غرض سے اپنائی جاتی ہیں ۔
مسلمانوں میں عام رجحان یہ ہے کہ ان میں دینی جماعتیں اپنی الگ پہچان بنانے کے لئے الگ الگ طریقے اپناتے ہیں، کبھی ان کی ٹوپیاں مخصوص قسم کی ہوتی ہیں، کبھی عمامہ کا رنگ اور اس کے لپیٹنے کا طریقہ الگ ہوتا ہے، اور اتنے تکلفات کہ دو آدمیوں کی مدد کے بعد بھی تیاری میں اچھا خاصا ٹائم لگ جائے، ظاہر ہے عام انسان کے پاس اتنا وقت کہاں جو اس شناخت پر عمل پیرا ہوسکے ۔
مسلمان کی بھی شناخت ہونی چاہیے تبھی وہ دنیا میں اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے، لیکن یاد رہے کہ اسلام ایک آفاقی دین ہے، اور کوشش کی جانی چاہیے کہ دنیا کا ہر انسان بغیر کسی دباؤ کے اس کو اپنالے۔
دنیا میں الگ الگ رنگ کے انسان بستے ہیں، ان کی زبانیں الگ ہیں، کھان پین الگ ہیں، رہنے سہنے کا طریقہ الگ ہے، سارے انسانوں کو ایک ہی طریقہ اپنانے پر مجبور کیسے کیا جاسکتا ہے  ؟ لیکن کچھ ایسی چیزیں ضرور ہونی چاہیے جو مسلمانوں کی شناخت بنے اور ساری دنیا کے مسلمان اس پر آسانی سے عمل کرسکیں، جب مسلمان میدان عرفات میں ایک ہی شکل میں ہوتا ہے کتنا دلکش نظارہ ہوتا ہے ۔
اسلام میں اپنے ماننے والوں کی شناخت کا فقدان نہیں، ہماری مسجدیں ہماری شناخت ہیں، ایک ہی طریقے سے جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی ہماری پہچان ہے، روزہ اور ہمارے دو تیوہار ہماری پہچان ہیں، ہماری شادیاں اور عقیقے ہماری پہچان ہیں، مردوں کے لباس ساتر اور تکلفات سے پاک اور عورتوں کا پردے میں وقار واحترام ہماری شناخت اور پہچان ہیں، ساتھ ہی ہمارےاخلاق جن کو ہم نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم سے سیکھا ہے ہماری شناخت ہیں ، ہر حال میں ہمیں ان کا اہتمام کرنا ہے اور اپنے کو باقی رکہنے اور دنیا کے سامنے اسلام کی صحیح اور حقیقی شکل پیش کرنے کے لئے ان کی حفاظت کرنی ہے ۔

ارشاد احمد اعظمی