Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, October 9, 2018

ہندو طاقتیں مسلمانوں کو تعلیم میں مزید پیچھے ڈھکیلنا چاہتی ہیں۔


سی ای آر ٹی نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اقلیت مرکوز اضلاع میں اے ایم یو سنٹر قائم کیا جائے تاکہ مسلم بچوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں آسانی ہو اور وہ ملک کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
دہلی ۔ 10 اکتوبر 2018/صداۓوقت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں میں تعلیم کی بدتر صورت حال کے پیش نظر دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں سی ای آر ٹی (سنٹر فار ایجوکیشنل اینڈ ریسرچ ٹریننگ) کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس پریس کانفرنس میں تعلیم سے متعلق مسلمانوں کے مسائل اور ان کے حل پر غور و خوض کیا گیا۔ اس موقع پر سی ای آر ٹی نے اعداد و شمار پیش کرتےہوئے ظاہر کیا کہ تعلیمی اعتبار سے اقلیتی طبقات میں مسلمانوں کی حالت کس قدر خراب ہے اور اس حالت کے لیے حکومتیں کتنی ذمہ دار ہیں۔ سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر توصیف احمد نے پریس کانفرنس کے دوران تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی حالت زار بیان کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اقلیت مرکوز اضلاع میں اے ایم یو کا سنٹر یعنی آف کیمپس قائم کیا جائے تاکہ آسانیاں پیدا ہوں۔
سی ای آر ٹی نے ہندوستان کی 34 اہم یونیورسٹیز کی جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ان میں تقریباً 63 ہزار مسلم طلبا پڑھتے ہیں جب کہ سبھی مذاہب کے طلبا کی مجموعی تعداد تقریباً 9 لاکھ 15 ہزار ہے۔ گویا کہ ہائر ایجوکیشن میں مسلم طلبا کا تناسب انتہائی کم ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ مسلم سماج کی بڑی تعداد پرائمری اور اسکولی تعلیم کے درمیان میں ہی تعلیم ترک کر دیتے ہیں اور اس کی ایک وجہ حکومت کی لاپروائی بھی ہے۔ دراصل حکومت مسلمانوں کی تعلیم کو فروغ دینا ہی نہیں چاہتی۔ اس موقع پر توصیف احمد نے کشن گنج اور ملپّورم میں اے ایم یو کے قائم کردہ سنٹر کی حالت زار بھی بیان کیا۔ انھوں نے کہا کہ جہاں ملپّورم سنٹر کو محض 50 کروڑ کا فنڈ ایک سال میں ملا وہیں کشن گنج سنٹر کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اس وجہ سے کشن گنج اے ایم یو سنٹر میں کسی طرح کی سرگرمی نہیں ہو رہی۔ توصیف احمد نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اقلیت مرکوز اضلاع میں اے ایم آف کیمپس کھولے جانے کے ساتھ ساتھ ہر سنٹر کو کم از کم 100 کروڑ روپے کا فنڈ مہیا کرایا جائے۔
پریس کانفرنس میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ریسرچ فیلو سعادت حسین نے یونیورسٹیز میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے رویہ اور خصوصاً مسلم بچیوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ مجھے بتایا گیا کہ جے این یو کے ایک پروفیسر نے اس مسلم بچی سے کہا کہ ’’تمھیں اسکارف میں دیکھ کر ہم غیر آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔‘‘ سعادت حسین نے کہا کہ ایسا صرف لڑکیوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ داڑھی رکھے ہوئے طلبا کے ساتھ بھی کئی بار غلط طریقے سے پیش آیا جاتا ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اگر ایک سنٹرل یونیورسٹی میں یہ حالت ہے تو پھر ریاستی یونیورسٹیوں میں کیا عالم ہوگا۔ انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جس طرح دیگر کمیونٹی کے بچے آرام دہ اور پرسکون ماحول میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں اسی طرح مسلم بچوں و بچیوں کو بھی ماحول فراہم کیا جانا چاہیے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ سے منسلک اظہر انصار نے پریس کانفرنس میں جامعہ کے اقلیتی کردار پر ہو رہے حملے کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے ہندوتوا طاقتوں کی سازش قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ مسلم ریزرویشن والے اداروں سے مسلم طبقہ کو بہت فائدہ ہوتا ہے اور یہاں سے اکثر مسلم بچے کامیاب ہو کر نکلتے ہیں جو کچھ لوگوں کو برداشت نہیں ہوتا۔ انھوں نے کہا کہ ’’مسلم ریزرویشن والے اداروں کی اقلیتی شناخت ختم کر کے وہ مسلمانوں کو مزید پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں جس کے خلاف ہم لوگوں کو کھڑا ہونا چاہیے۔‘‘ آئی آئی آئی ایس کے طالب علم محمد انصار نے اس موقع پر میوات میں مسلمانوں کی حالت زار اور خصوصاً مدرسہ کے طلبا سے متعلق مسائل لوگوں کے سامنے رکھے اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان مسائل کو دور کیا جائے۔ محمد انصار نے بتایا کہ 2005 میں جب گڑگاؤں سے علیحدہ کر کے میوات الگ ضلع بنایا گیا تب سے یہ بالکل الگ تھلگ پڑ گیا ہے۔ یہاں 77 مدارس ہیں لیکن بدقسمتی سے ایک بھی مدرسہ کو وہ حیثیت نہیں حاصل ہے کہ یہاں سے نکلنے والے بچے کسی یونیورسٹی میں داخلہ لے سکیں۔ محمد انصار نے میوات میں اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی کمی کو بھی علاقے کی پسماندگی کی اہم وجہ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ پرائمری سے مڈل کلاس میں جاتے جاتے بچوں کی تعداد نصف ہو جاتی ہے اور پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا تو مسلمانوں کے لیے محال ہی ہے۔
اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن کے قومی سکریٹری شافی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مدرسہ سے
متعلق طلبا کے مسائل کا خاص طور سے تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبا کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اس کی بڑی تعداد یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے پاتی اس لیے مسلمان تعلیم کے شعبہ میں بہت پیچھے ہیں۔ انھوں نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ سبھی یونیورسٹی میں ایسا برج کورس چلایا جائے جو مدارس کے طلبا کا یونیورسٹی میں داخلہ آسان بنائے۔