Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, October 4, 2018

اتر پردیش میں خونی راون راجیہ۔مر جائیے کہ آپ لکھنئو میں ہیں۔


         تحریر/ سمیع اللہ خان۔بشکریہ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
دو سگے بھائی عمران غازی اور اَرمان غازی کو لکھنؤ میں چھ غنڈوں نے بھری پری سڑک پر گولیوں اور ہتھیاروں سے چھلنی کردیا، یہ خونی واردات لکھنؤ کے ٹھاکر گنج میں واقع مصاحب گنج کی ہے، بری طرح زخمی دونوں بھائیوں نے دوران علاج دم توڑ دیا، آپ چاہیں تو اپنا جی بہلانے کے لیے اس واردات کو، کوئی کرائم سمجھ کر یا رنجش سمجھ کر ٹال جائیں،یا پھر جو بھی تاویل آپکے دل میں آئے اسے سمجھ لیں، دل وقتی طور پر ہی سہی بہل جائےگا، نیز محفوظ و مامون "  افراد " کے تو کیا کہنے؟ وہ محفوظ و مامون ہیں ۔

لیکن ملکی سطح پر جس تیزرفتاری سے انارکی اور جنگل راج ہندوستانی عوام کو اپنے زہر سے آلودہ کررہاہے وہ یقیناﹰ آپ کے بیٹوں اور بیٹیوں کا مستقبل زہرناک ہونے کی دستک دے رہاہے ۔
ایک بھیڑ آتی ہے اور مسلمان نام و شناخت والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے، کروڑوں اربوں کے گھوٹالے ہوتے ہیں اور مجرمین سرکاری داماد بن جاتےہیں، عدلیہ اور آئین سسکنے لگی ہے، بے باک و انصاف پسند لوگوں کو نظر بند کیا جارہاہے، کسانوں پر ہتھوڑے اور نوجوانوں پر ہتھکنڈے برسائے جارہےہیں، ملکی معیشت بھیک مانگ رہی ہے، وزیراعظم نریندرمودی کے پاس کارپوریٹ سیکٹر کے پرائیویٹ لیمیٹیڈ جیو کے پرچار کا وقت تو ہے لیکن سرکاری نیٹ ورک بی ایس این ایل کی ساکھ مضبوط کرنے کا وقت نہیں ہوتا! تعلیمی ادارے اور میڈیا ہاؤز پوری طرح اوندھے منہ غلامی کے سجدے میں ہیں، عوام کو پوری طرح جرائم پیشہ بنانے کی کوشش ہے، گنجان آبادیوں میں منشیات، فحاشیت اور اذیت پسند بنایا جارہاہے، عدلیہ سے ایسے فیصلے آرہے ہیں جو نوجوانوں کو شہوت پرست بھیڑیے اور ادھیڑ عمر کے لوگوں کو جنسی بےچارگی میں مبتلا کردے، قوم اور ملک کے حقیقی ایشوز پر کچھ کرنا تو، دور، سوچنے تک کے لیے کوئی موڑ، کوئی مرحلہ نہیں!
آئین و جمہوریت کے دعویداروں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے، یہ وہی ملک ہے جہاں یعقوب میمن کے جنازے کے شرکاء تو دہشتگرد قرار پائے تھے، اور شنبھو لال نامی دہشت گردی کے حمایتی جو دن دہاڑے علی الاعلان نفرت کا یہ ننگا ناچ کرتےہیں، کھلے بندوں عدالت کی توہین کرتےہیں، وہ سب دیش بھکت کہلاتے ہیں!
یہ ملک کہاں جارہا ہے؟ اس کا مستقبل کس قدر خطرناک اور زہر آلود ہوچکا ہے کیا اب بھی اس کا اندازہ آپ نہیں لگا پارہے ہیں؟ کیا حکومتیں ان تمام شرانگیزی سے لاعلم ہوں گی؟
ہندوستان بھر میں ٹریفک اور دفاتر میں بدعنوانیوں سے کون سا، محکمہ واقف نہیں؟ اترپردیش، ہریانہ، جھارکھنڈ، ان ریاستوں کو تو گویا منظم پلاننگ کے تحت ایک جانور اور بھیڑ کی شکل میں تبدیل کیا جارہاہے!
یہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں، دلتوں، عیسائیوں اور تمام غیر برہمن طبقات کے لیے خطرناک الارم ہے، رونا مت روئیے ابھی بھي وقت ہے، جذباتی پالیسی اور روایتی استحصال سے باہر ملکیت ۔
یاد رکھیں:
گوڈسے وادی ہندوراشٹر اپنے تمام تر خون و خنجر سمیت شباب پر ہے، اور ہندوستانی عوام سے لیکر خواص اور آئینی و دستوری عہدیداروں سب ملکر اس کا خاموش استقبال کررہےہیں ۔
مؤرخ اس کو لکھے گا اور ضرور لکھے گا کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب نسلوں کی تباہی ہندوستان کے دروازے پر دستک دے رہی تھی، قتل و خون فحاشی اور بدعنوانی عام زندگیوں کا حصہ بن رہی تھی لیکن بھارتی لوگ خود پسندی، گروہ بندی، اور طبقاتی و خول بندی کی کیفیت میں مبتلا تھے، اترپردیش میں کل جسطرح یہ خون کی ہولی کھیلی گئی ہے، اور گذشتہ سالوں سے جس سفاکیت کے ساتھ پولیس کا انکاﺅنٹر کے نام پر خونی کھیل جاری ہے وہ بدترین موڑ پر منتج ہونے والاہے، ہاں البتہ، اگر غلطی سے گولی نوشاد کی جگہ وویک تیواری کو لگ جائے تو ریاست کے شاہ صاحب ان کے لیے دل کے دروازے کھول دینگے اور اگر غازی برادران قتل کیے جائیں تو ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا، کیوں کہ اس وقت مؤرخ لکھ رہاہے
" مرجائیے کہ آپ لکھنؤ میں ہیں"